کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 93
صریح پر رہے ہوں۔‘‘(شرح الواسطية از هراس، ص: 16) ابو شامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’جہاں جماعت سے وابستگی اور لزوم کا حکم آیا ہے وہاں اس سے مراد حق سے وابستگی اور اس کی اتباع ہے، چاہے حق پر جمے رہنے والے لوگ کم اور اس کے مخالف زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ حق وہ ہے جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والی جماعت تھی اب ان کے بعد اہل باطل کی کثرت ہو جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے؟(الباعث لابي شامه، ص: 22) ایک بار عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے ’’جماعت‘‘ کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ اس سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ’’ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما‘‘۔ کسی نے کہا: ’’ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما تو فوت ہو چکے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’تو پھر فلاں اور فلاں‘‘۔ اس نے کہا: ’’وہ بھی فوت ہو چکے ہیں؟‘‘۔ ابن المبارک رحمہ اللہ نے کہا: ’’(تو پھر)ابو حمزہ سکری رحمہ اللہ جماعت ہیں۔‘‘(شرح السنة للبغوي رحمه اللّٰه 1/205) چنانچہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے جماعت کی تفسیر اس شخص یا اشخاص سے کی ہے جن میں کتاب و سنت کی مکمل اتباع کی صفات پوری ہوتی ہوں۔ اس لئے ان لوگوں کو بطور مثال پیش کیا ہے جن کی اقتداء کی جا سکے اور اس لحاظ سے اپنے زمانے میں صرف ابو حمزہ سکری رحمہ اللہ کا ہی ذکر کیا ہے جو کہ اہل علم و فضل اور زہد و ورع میں یگانہ تھے۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں التزام جماعت اور اس سے عدم خروج کو فرض قرار دیا گیا ہے تو علماء کے مابین اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ ان احادیث میں جماعت کے لفظ سے مقصود کیا ہے مگر یہ اختلاف کسی بڑے تضاد یا تعارض پر مبنی نہیں ہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ تنوع قرار دیا جا سکتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں: