کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 91
اصول فقہ کی اصطلاح میں سنت سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول وہ خاص بات ہے جو قرآن مجید کی نص میں شامل نہ ہو بلکہ آپ نے اپنی زبان سے کہی ہو اور قرآن مجید میں مذکور کسی چیز کے بیان کے طور پر فرمائی ہو۔(موافقات شاطبی: 4/47) جبکہ فقہاء کے نزدیک ’’سنت‘‘ سے مراد وہ چیز ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور فرض یا واجب کے علاوہ ہو۔(موافقات شاطبی: 4/4) پھر جب فرقے بننے لگے، بدعات جنم لینے لگیں اور خواہشات و اھواء پیچ در پیچ بڑھنے لگیں تو بدعت کے مقابلے میں سنت کا اطلاق ہونے لگا، مثلاً فلاں شخص اہل سنت میں سے ہے یا وہ متبع سنت ہے۔ اسی طرح یہ بات کہ فلاں شخص سنت پر ہے اس وقت بولا جانے لگا جب وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق کام کرنے والا ہو۔ اس سے بڑھ کر ہر اس عمل یا کام پر سنت کا اطلاق ہونا شروع ہو گیا جس پر کوئی شرعی دلیل ملتی ہو چاہے وہ قرآن پاک سے ملتی ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجتہاد سے، مثلاً جمع قرآن، لوگوں کو قرآن مجید کی قراءت میں ایک لفظ پر اکٹھے کرنا اور تدوین دواوین۔(السنة للسباعي، ص: 48) پھر بیشتر متاخرین علماء اہل الحدیث اور دوسرے علماء کے عرف میں سنت ان اعتقادات پر بولی جانے لگی جو شبہات سے پاک ہوں خاص طور پر اللہ کے ساتھ ایمان اور فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور یوم آخرت کے مسائل میں، اسی طرح تقدیر کے مسائل اور فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم جیسے عقائد میں بھی سنت کا اطلاق ہونے لگا، اسی علم میں علماء نے کتابیں بھی تصنیف کی ہیں اور انہیں ’’کتب سنت‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس علم(عقائد)کے لئے سنت کا نام اس لئے خاص کیا گیا ہے کہ یہ بے انتہاء نازک حساس اور خطرناک مسئلہ ہے اور اس میں