کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 88
قلت: فما العصمة يا رسول اللّٰه؟ قال: ”السيف“ قال: قلت: وهل بعد هذا السيف بقية؟ قال: نعم ”امارة علي اقذاء وهدنة علي دخن“ قال: قلت: ثم ماذا؟ قال: ثم تنشاء دعاة الضلالة، فان كان اللّٰه يومئذ في الارض خليفة جلد ظهرك واخذ مالك فالزمه، والافمت وانت عاض علي جذل شجرة“ قال: قلت: ثم ماذا؟ قال: يخرج الدجال بعد ذلك۔۔۔ الحديث(ابوداؤد و احمد) خالد یشکری کی ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں دریافت کیا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں سوال کیا کرتا تھا۔ سننے والوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو اچھا نہ سمجھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم اسے ناپسند کرتے ہو، جب اسلام آیا تو ایسے آیا کہ جاہلیت سے قطعی مختلف تھا، مجھے قرآن کا کچھ فہم نصیب ہوا تھا لوگ آپ کے پاس حاضر ہوئے تو خیر کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہو گا جیسا کہ اس سے پہلے شر تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کی: حضور اس سے بچاؤ کی کیا تدبیر ہو گی؟ فرمایا: تلوار۔ میں نے عرض کی: کیا اس جنگ کے بعد کچھ بچے گا؟ فرمایا: ہاں! ناپسندیدہ صورتحال میں امارت کا قیام اور سلگتی ہوئی(دخن)صلح، میں نے عرض کی: پھر کیا ہو گا؟ فرمایا: پھر گمراہی کی دعوت دینے والے اٹھیں گے اس وقت اگر زمین میں اللہ کا کوئی خلیفہ ہو، چاہے وہ تمہیں مارتا یا مال بھی بھی چھینتا ہو تو تم اس سے وابستہ رہنا ورنہ درختوں کی جڑیں چباتے ہوئے زندگی گزار دینا۔ میں نے عرض کی: پھر کیا ہو گا؟ فرمایا: پھر اس کے بعد دجال نکلے گا۔۔۔