کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 87
خیر کی بات تو مجھ سے چھوٹ نہیں پائے گی، میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ آپ نے فرمایا: حذیفہ اللہ کی کتاب کا علم سیکھو اور اس میں جو کچھ ہے اس کا اتباع کرو – تین بار ایسے ہی فرمایا – میں نے(پھر)سوال کیا: اللہ کے رسول! کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ فرمایا: دخن والی صلح ہو گی اور گدلے پن کے ساتھ(بادل نخواستہ)ایک اتفاق ہو گا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! دخن والی صلح! کیا مطلب؟ فرمایا کہ سب فریقوں کے دلوں میں پہلے جیسی محبت و مودت نہ آ سکے گی۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ فرمایا: گھٹا ٹوپ فتنہ جس کی طرف جہنم کی دعوت دینے والے لوگ بلاتے ہوں گے، حذیفہ اس وقت تم جڑیں چباتے بھی مر جاؤ تو ان جہنم کے داعیوں کے پیچھے چلنے سے بہتر ہے۔‘‘ وفي لفظ عن خالد اليشكري – وذكر القصة – قال: وحدث القوم(اي حذيفة)فقال: ان الناس كانوا يسالون رسول اللّٰه عن الخير وكنت اساله عن الشر، فانكر ذلك القوم عليه، فقال لهم: اني ساخبركم بما انكرتم من ذلك جاء الاسلام حين جاء فجاء امر ليس كامر الجاهلية، وكنت قد اعطيت في القراٰن فهما، فكان رجال يحبون فيسالون عن الخير، فكنت اساله عن الشر، فقلت: يا رسول اللّٰه، ايكون بعد هذا الخير شر كما كان قبله شر؟ فقال: نعم، قال: