کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 8
ایمان و عقیدہ اور تحریک و عمل میں ایک خلیج پیدا کر دی گئی ہے اور اس بناء پر ان لوگوں کا تو ذکر ہی کیا جو عقیدہ کی اولیت کے قائل ہونے کے سرے سے دعویدار نہیں، دوسرے بیشتر طوائف بھی جو اپنے عمل کی بنیاد عقیدہ کو قرار دیتے ہیں، عقیدہ گویا تو ’’رٹا‘‘ قسم کی چیز بنا دیتے ہیں یا پھر ایک تاریخی یادگار جو آج بھی بحث و مباحثے کا موضوع ہونی چاہیے! زیادہ ہوا تو اس کے چند پہلوؤں کو ہی دین کی کل کائنات سمجھ لیتے ہیں، پھر انہیں پیش کرنے اور ان کی بنیاد پر لوگوں سے قرب و بعد اختیار کرنے میں جو افراط و تفریط روا رکھی جاتی ہے وہ بجائے خود ایک ستم ہے۔ یہ سب لوگ یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ عقیدہ ہر دور کی جاہلیت سے مکمل براءت اور ہر دور کے طاغوتوں سے کفر کرنے کا سبق دیتا ہے اور ہر زمانے میں حق اور باطل کو دو صفوں میں بانٹ کر ان میں ازلی و ابدی جنگ کو مہمیز کر دینے کا پیغام ہے جس کے نتیجے میں دین پورے کا پورا اللہ وحدہ لا شریک کے لئے ہو جائے اور ذلت و حقارت اس کے دشمنوں اور شریکوں کے لئے خاص ہو جائے۔ ایمان سے عمل کو مربوط کرنے اور یوں عقیدہ کی بنیاد پر تحریک کھڑی کرنے کا علم جو عموماً ’’منهج‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے جس سے دین کے اصول و فروع کا تعین ہوتا ہے اور ان ہر دو میں کفر و بغی، بدعات و اھواء یا خطا و تاویل اور جہل کی بناء پر ہونے والے اختلافات و انحراف کی جو پیمائش و درجہ بندی ہوتی ہے اور اہل ایمان کے پردہ شعور پر اسلام اور جاہلیت کے اس حقیقی معرکہ کا نقشہ اُبھرتا ہے جو انبیاء کی پیروی میں ہر دور کی ظلمت کو مٹانے کی خاطر لڑا گیا ہے پھر اس کشمکش کو اٹھانے کے لئے جو انداز و اسلوب اختیار کیا جاتا ہے اس کتاب میں ان سب امور میں اصول اہل سنت سے رہنمائی لینے کی کوشش کی گئی ہے۔