کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 63
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بے شمار احادیث اپنے کانوں سے سنیں، آپ کے حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور مشن کو اپنے دلوں کو محسوس کیا ان سب کی بناء پر وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و فرامین کی وہ مراد بخوبی سمجھتے تھے جس کے فہم میں بعد میں آنے والی نسلیں ان کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ آخر وہ شخص جس نے کہنے والے کو سنا بھی ہو، جانتا بھی ہو اور دیکھا بھی ہو اور نہ سنا ہو یا اس کی شنید اور علم کئی واسطوں سے حاصل کر پایا ہو! اب جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ سبقت اور فضیلت حاصل ہے جو کسی اور کو حاصل نہ ہو سکی تو اس سلسلے میں کسی دوسرے کی بجائے صرف اور صرف انہی کی طرف رجوع لازمی اور قطعی ٹھہرتا ہے چنانچہ بقول امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ’’ہمارے ہاں اہل سنت کے اصول یہ ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رسول کے مسلک کی پابندی کی جائے۔‘‘ اسی لئے فرقہ ناجیہ کا عقیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریق کار پر چلنا ہے جیسا کہ اس فرقہ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شہادت ہے:((مَن كان على مِثلِ ما أنا عليه وأصحابِي))کہ ’’وہ اس طریقہ پر ہوں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں‘‘ ان وجوہ اور اسباب کی بناء پر جو کہ اہل بصیرت کے ہاں قطعی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں، چاہے دل کے اندھوں کے ہاں بےشک ظنی بھی نہ ہوں، قرآن کی تفسیر اور مراد الٰہی کی صحیح بین تاویل کے سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع ہی سیدھا راستہ ہے پھر یہ تو معلوم ہی ہے کہ تابعین عظام رحمہم اللہ نے یہ سب کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لیا اور سیکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو علم ان تک پہنچایا اس میں کسی قسم کا انحراف نہیں کیا۔(مختصر الصواعق المرسلة ج 2/335)