کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 62
اور محفوظ کیا جا سکے۔ اب جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے الفاظ کے ساتھ ساتھ معانی بھی محفوظ کر لیتے تھے تو انہیں کسی دوسرے کے الفاظ کی ضرورت نہ رہتی، لہٰذا قرآن کے معانی بھی اس کے الفاظ کی طرح برابر نقل ہوتے ہیں۔ جب سلف سابقین یہ ایمان رکھتے تھے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس کا کلام ہے جسے اس نے ان کے لئے اتار کر ہدایت فراہم کی ہے اور ان کو اس کی پیروی کا حکم دیا ہے تو وہ قرآن فہمی کا کوئی موقع کیونکر ہاتھ سے جانے دیتے کہ اس کا معنی و مراد عام اور خاص ہر جہت سے معلوم ہو جائے؟ جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تو قرآن اور اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی محفوظ کلام یا کتاب بھی نہیں تھی جس کو وہ پڑھتے اور تفقہ حاصل کرتے۔ لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی مجالس میں ان دونوں کے علاوہ کچھ پڑھتے سناتے نہ تھے بلکہ ان لوگوں کے ہاں قرآن ہی وہ علم تھا جس کے حفظ و فہم اور علم و تفقہ میں وہ صبح و شام لگے رہتے تھے اور اس سلسلے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ مزید برآں یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس ان کے مابین موجود تھے جو خود بھی اس کی تفسیر کا علم رکھتے تھے اور اس کو ان تک بھی اس کے الفاظ ہی کی طرح پہنچاتے تھے۔ اس وجہ سے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس سلسلے میں کسی دوسرے کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہ بھی ممکن نہیں کہ اس علم کی خاطر ان کے دلوں میں تڑپ پیدا نہ ہوتی ہو پھر یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ رضی اللہ عنہم کو وہ علم نہ سکھاتے ہوں اس بات کا تصور کیسے ممکن ہے جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم علم و ہدایت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہوں اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہو کہ وہ ان کی تعلیم و ہدایت کے لئے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہوں، وہ تو کفار کی ہدایت و راستی کے لئے بے چین رہا کرتے تھے!