کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 61
الْمُبِينُ﴾’’رسول کا فرض واضح طور پر پہنچا دینا(بلاغ)ہے۔ اس(بلاغ)پہنچا دینے میں معانی بھی شامل ہیں بلکہ یہ تو بیان کے اعلیٰ درجات میں شامل ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اپنے اور اپنے رب کے کلام کے معانی نہیں پہنچائے بلکہ صرف الفاظ پہنچائے ہیں(یعنی الفاظ کی حد تک بلاغ مبین کیا ہے)جبکہ معانی کے فہم کے سلسلے میں آپ نے امت کو ان لوگوں کے اقوال پر چھوڑ دیا ہے ایسا شخص گویا یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ آپ نے بلاغ کا فریضہ سرانجام دے دیا ہے۔ جبکہ اہل علم اور اہل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اسی بات کی شہادت دیتے ہیں جس کی شہادت خود اللہ تعالیٰ نے، اس کے فرشتوں نے اور خیر القرون نے دی ہے کہ آپ نے بلاغ مبین کا فرض اس حد تک پورا کیا ہے کہ کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا، جس سے حجت قائم ہو گئی ہے اور علم و یقین لفظاً و معناً حاصل ہو گیا ہے۔ اس بات کا یقین کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت کے معانی امت کو(ابلاغ)پہنچائے ہیں وہی اہمیت رکھتا ہے جو اس بات کے یقین کی ہے کہ آپ نے الفاظ کا ابلاغ کیا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ، کیونکہ قرآن و سنت کے الفاظ تو امت کے خاص لوگ ہی حفظ کرتے ہیں جبکہ معانی کا علم عام بھی اور خاص بھی سبھی اس میں مشترک ہوتے ہیں۔ حبیب بن عبداللہ البجلی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: ہم نے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا تو ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے الفاظ اور معنی دونوں حاصل کیا کرتے تھے بلکہ معانی کے حصول کا زیادہ خیال کیا کرتے تھے، پہلے معانی اور مفاہیم حاصل کیا کرتے تھے پھر الفاظ لیتے تھے کہ ان معانی کو ضبط میں لایا