کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 60
قرآن کے معانی سے استدلال ان روایات کی مدد سے کرتے ہیں جو ثقہ راویوں کے ذریعے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اور پھر تابعین رحمہم اللہ و ائمہ ہدی کے اقوال کا درجہ ہے۔ کیا کسی ذی ہوش اور عقلمند آدمی سے یہ بات اوجھل رہ سکتی ہے کہ تفسیر قرآن کا یہ طریقہ اس طریقے سے لاکھ درجے بہتر ہے جو ائمہ ضلالت اور جہمیہ و معتزلہ کے مریسی، جبائی، نظام اور علاف جیسے مشائخ سے لیا گیا ہے جو کہ اہل افتراق و اختلاف ہیں، دین کے ٹکڑے کرتے ہیں اور ہر فرقہ اپنے اپنے عقائد و افکار کو دیکھ کر پھولا نہیں سماتا؟ اگر تفسیر قرآن، اس سے استدلال اور علم یقینی کا حصول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن صحیحہ ثابتہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے اقوال درست نہیں ہے تو کیا قرآن کے معانی کا استخراج جہم اور اس کے حواریوں کی تحریفات سے کیا جائے گا؟ یا علاف، نظام، جبائی، مریسی، عبدالجبار اور ان کے چیلوں کی تاویلات سے کیا جائے گا جن کی آنکھیں اندھی، اور دل ٹیڑھے ہیں؟ جن کی زبان کو سنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جبکہ قرآن اہل علم اور اہل ایمان کے ہاں بسا کرتا ہے۔۔(مختصر الصواعق المرسلة ج 2/335) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن لفظاً و معناً ملا ہے: بقول امام ابن قیم رحمہ اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے قرآن پاک لفظاً اور معناً ہر دو لحاظ سے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو قرآن کے الفاظ پہنچائے، اسی طرح قرآن کے معنی بھی پہنچائے۔ ظاہر ہے بیان اور بلاغ پورا بھی اسی طرح ہو سکتا ہے، ارشاد الٰہی ہے:﴿وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ