کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 6
ہے جو ایک جگمگاتی ہوئی روشن تہذیب کی شکل میں نجات کے ہر متلاشی کو دعوت تفکر دیتا ہے۔ انسانی شکل و صورت اور بشری قالب میں دین اسلام کا یہ تاریخی وجود، جو کہ تاقیامت ورثہ نبوت ہے، اہل سنت کے نام سے موسوم ہوا ہے۔ اسماء و القاب سے قطع نظر بہرحال چونکہ زمین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا تسلسل یہی جماعت رہی ہے، اس عقیدہ و فکر اور منہج و سلوک سمیت دین کے ہر گوشے اور ہر شعبے میں اسی کے وجود سے اپنا وجود تلاش کرنا، اسی کے خطوط سے اپنے فکر و عمل کو موازنہ کرنا، اسی کو اتباع رسول کا پیمانہ اور محور تسلیم کر کے خود کو تولنا اور اسی کے علمی ورثے کے ذریعے حق کا فہم لینا ضروری ہے۔ اللہ کی طرف لوٹنے اور اس کی بنیاد پر امت کو بیدار کرنے کا جو کام اس دور میں ہو رہا ہے اور اس مقصد کے لئے پچھلی صدی سے لے کر جو بہت سی تحریکیں اٹھی ہیں(خاص طور پر برصغیر میں)ان میں ایک بہت بڑا رخنہ، جو آگے چل کر اور بڑے رخنوں کا سبب بنا، یہ رہا کہ اہل سنت کے تاریخی وجود سے اپنے وجود کو متصل نہ کرنے کے باعث خود تجربات کرنے، اپنی فکر لڑانے، خود راستے تلاش کرنے اور فقہ سلف سے یک گونہ بے نیاز ہو کر کتاب و سنت سے براہ راست استفادہ اور اجتہاد کرنے کی روش بہت زیادہ عام ہوئی ہے۔ یوں بعض روایتی مسائل یا معروف عقائد کو کسی حد تک چھوڑ کر دین کے بیشتر امور میں کتاب و سنت کی توضیح و تفہیم اور استدلال و استنباط میں ’’اپنا خیال‘‘ ظاہر کرنے کا رجحان بہت پلا بڑھا ہے اور اس میں روز بروز افزائش ہو رہی ہے۔ سلف اور اہل سنت کے علم و فقہ کو ایک حد تک نظر انداز کر کے ایک نئے سرے سے دین و عقیدہ، سلوک و طرزعمل، اقامت دین، منہج تربیت و تحریک، اعلاء کلمۃ اللہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایسے دین کے بنیادی تصورات کی تفہیم و تفسیر