کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 59
موجود تھے، بلکہ ان کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے، اسناد، راویوں کے حالات، سند کی کمزوریوں اور جرح و تعدیل میں پڑنے کی ان کو ضرورت ہی نہیں تھی، قواعد و اصول فقہ اور اصولیوں کی تفصیلات میں جانے کی بھی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ان سب چیزوں سے وہ لوگ بے نیاز تھے۔ ان کے ہاں تو دو باتیں تھیں ایک یا تو اللہ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا ہے؟ دوسری یہ کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ انہی دو باتوں میں وہ بے انتہاء خوش قسمت تھے بلکہ پوری امت کی نسبت خود کفیل تھے کہ ان کی ساری کی ساری صلاحیتیں اور قوتیں مجتمع ہو کے اسی کام پر لگی ہوئی تھیں۔ کیوں نہ ہو کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل تھا جو اس صحبت کے دوران قرآن کے اسرار کا مشاہدہ کرتے رہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بنفس نفیس علم لیتے رہے، نزول قرآن، اسباب نزول، تفسیر اور آداب تفسیر سے براہ راست بہرہ ور ہوتے رہے اور قرآن کی روشنیوں اور نبوت کی شعاؤں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ امت میں سے یہ حضرات خوش قسمت ترین اقرب الی الصواب اور قرآن و سنت کے تفقہ کے سب سے بڑھ کر اہل ہیں۔ [1] امام ابن قیم رحمہ اللہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: انبیاء علیہم السلام کی وراثت کا حق رکھنے والے
[1] اس عبارت کے پیرے کتاب لوامع الانوار البهية صفحہ 525 سے لئے گئے ہیں جس کے مصنف الشیخ محمد بن سلوم ہیں یہ کتاب محمد بن سالم الفارینی کی کتاب لواصع الانوار البهيه کا اختصار ہے جبکہ یہ کتاب الدرة المضئة في عقيده الفرقه المرضيه کی شرح ہے اس سلسلے میں شرح عقیدہ طحاویہ کا بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔(صفحہ 464 اور مابعد) جہاں یہ حدیث ذکر کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(خَيرُ النّاسِ قَرْني، ثمَّ الَّذين يَلُونهم، ثمَّ الَّذين يَلُونَهم) ’’لوگوں میں سب سے بہتر میرے زمانے کے(لوگ) ہیں پھر ان کے بعد والے اور پھر ان کے بعد والے۔‘‘ اس روایت کے ایک راوی عمران کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانے کہا تھا یا تین زمانے(صحیحین)۔