کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 57
فضل سے سچائی، فضائل، معروف اور عزیمت و سرفرازی کی بلند چوٹیوں کو سر کیا تھا۔ اب خوش بخت وہ ہے جو ان کے سیدھے راستہ پر چلے گا اور ان کے منہج مستقیم کی اتباع کرے گا، بدبخت وہ ہے جو ان کے راستے سے ہٹ جائے اور ان کے نقش قدم سے انحراف کر بیٹھے۔ کون سی ایسی بھلائی ہے جس سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا دامن خالی رہا ہو؟ کون سی فضیلت ہے جس کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سبقت نہ کی ہو، نیکی کی وہ کون سی وادی ہے جس میں ان کے گھوڑے نہ دوڑے ہوں؟ ان لوگوں کی زندگیاں صاف شفاف اور میٹھے چشمے نظر آتی ہیں جنہوں نے دین کی بنیادوں کو یوں پختہ کیا اور نیکی و معروف کی وہ آبیاری کی کہ بعد میں آنے والوں کی حیثیت ان کے مقابلے میں نہ رہی۔ اللہ کے پیارے بندے دلوں کو قرآن کی شیرینی اور ذکر و ایمان کی حلاوت سے فتح کیا کرتے تھے اور ملکوں بستیوں کو شمشیر و سنان سے مسخر کرتے تھے، اور ان سب فتوحات میں رب کی خوشنودی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ کوئی نیکی نیکی نہ رہی جس کی ان سے سند نہ ملتی ہو، کوئی دلیل حجت نہ رہی جس کی تصدیق ان کے ذخیرہ ہائے علم سے نہ ہوتی ہو اور کوئی راستہ راہ نجات نہ بن سکا جب تک اس پر وہ لوگ نہ چلے ہوں۔ بھلائی، خیر اور سعادت سب کے سب انہی کی طرز عمل اور عقیدہ و منہج سے منسوب ٹھہری۔ جب تک مجالس علم و فضل میں ان کا ذکر ہے اور جب تک یہ امت تلاش حق کی راہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی وادیوں سے گزرتی رہے گی ان کی قربانیوں، محنتوں اور کاوشوں کے سامنے دل احساس مندی اور تشکر کے جذبات سے ممنون ہوتے رہیں گے اور مشیت الٰہی ہے کہ اس وقت تک ان پر اللہ کی خوشنودی و رحمت کا سایہ رہے گا۔