کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 54
رہے۔ ہر نسل نئی نسل کو یہ پرچم اسی انداز سے سپرد کرتی رہی، تاآنکہ ہر دور اور ہر زمانے میں سنت کا علم سربلند رہا، اس کے امتیاز کو برقرار رکھنے کے لئے طائفہ منصورہ کے مضبوط بازو ہمیشہ آگے بڑھتے رہے کہ اس کی وہ چمک دمک باقی رہے۔ آندھیاں چلتی رہیں، نسلیں گزرتی رہیں مگر یہ علم سایہ فگن ہی رہا کہ اسے رہتی دنیا تک رہنا ہے۔ آخر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:((لا يَزالُ طائِفَةٌ مِن أُمَّتي ظاهِرِينَ، حتّى يَأْتِيَهُمْ أمْرُ اللّٰهِ وهُمْ ظاهِرُونَ))’’میری امت میں کچھ لوگ(حق کے ساتھ)ظاہر و غالب رہیں گے تاآنکہ قیامت بھی آ جائے گی اور وہ اسی طرح رہیں گے۔(صحیح البخاری) زمانے بیت گئے اور صدیاں گزر گئیں اہل سنت نے اپنا وجود برقرار رکھا۔ اس دوران اس طائفہ ناجیہ کے اصول اور قواعد نے ایک مرتب شکل اپنا لی، اس کے مناہج کی تحدید ہوئی، اس کے افکار اور علوم کا امتیاز نکھر کر واضح ہو گیا، اس کے عقائد کی تدوین ہو گئی اور دیگر فرقوں کے عقائد، اصول اور افکار و نظریات کے درمیان ایک واضح تمیز پیدا ہو گئی۔ یوں اس طائفہ منصورہ کی حیثیت ملت کے دیگر فرقوں کے مقابلے میں وہ شکل اختیار کر گئی جو ملت اسلامیہ دوسری ملتوں کے مقابلے میں رکھتی ہے۔ [1] اس جماعت کے لوگ عقائد، فقہ، اخلاق اور سلوک غرض ہر چیز میں دیگر فرقوں سے متمیز ہو گئے۔ یہ لوگ اس دین کی بہترین مثال بن گئے۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اقامت حجت کا کام انہی لوگوں سے لیا۔ ان
[1] تاویٰ میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل الحدیث اور اہل السنۃ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے سے خاص تعلق رکھتے ہیں اللہ کا ان پر خاص فضل ہے کہ علم، حلم میں ان کو خاص مقام پر فائز کیا ہے اور ان کے لئے دوہرا اجر ہے جو دوسروں کے لئے نہیں جیسے سلف میں سے کسی کا قول ہے اہل سنت کی اسلام میں وہ حیثیت ہے جو اسلام کی دیگر ملتوں میں ہے۔(فتاویٰ ابن تیمیہ: ج 4/40)