کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 53
اہل سنت کا علم ہر دور میں بلند رہا ہے لیکن اس تمام تر اختلاف و افتراق کے گھمسان میں بھی مشیتِ الٰہی نے اس بات کا تقاضا کیا کہ اپنے دین کے لئے ہر دور میں ایسے لوگوں کا انتخاب کرتا رہے جن کے ذریعے اس کا وہ ابدی ارادہ ظہور پذیر ہوتا رہے جو اس نے حفظ دین کی خاطر کر رکھا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہی تھے جنہوں نے اس فریضہ کی انجام دہی کو اپنا مقصد بنایا:﴿رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ۖ﴾’’ایسے لوگ جنہوں نے اللہ کے ساتھ عہدوپیمان سچ کر دکھایا۔‘‘(احزاب: 23)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس فرض کو ادا کرنے میں کوئی کسر روا نہ رکھی اور سب کچھ لٹا کر اس عظیم امانت کو ادا کر دیا جس کا بار ان کے کندھوں پر ڈالا گیا تھا، انہوں نے تابعین رحمہم اللہ تک اس امانت کو بلا کم و کاست پہنچایا، پھر تابعین رحمہم اللہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے بہترین جانشین ثابت ہوئے، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے بعد کی نسلوں کے لئے تبع تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ سنت و حدیث تک اسی دیانت اور ذمہ داری سے پہنچایا کہ راہ حق پر چلنے والوں کے لئے اس کی وہی آب و تاب سلامت رہے۔ اس میدان میں نہ کسی کی مخالفت کی پرواہ کی اور نہ کسی ملامت کرنے والے کا خوف کھایا، اپنی عزت و آبرو تک کو لٹا کر اس خالص دین کو اہل بدعت و ضلالت اور خواہشات و آراء کی چیرہ دستیوں سے محفوظ کرنے میں لگے رہے، تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی سنت و آثار کا دامن تھامے رکھا، اس کی پابندی بھی کی، حفاظت بھی کی اور بعد کی نسلوں کو تلقین بھی کرتے رہے۔ یونہی یہ سلسلہ چلتا رہا اہل سنت اور اہل حق کی ہر نئی نسل پہلی نسل کے ہاتھوں سے(مذہب)سنت کا پرچم تھامتی رہی۔ یوں سنت کے نقوش مٹنے کی بجائے روشن اور امر ہوتے