کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 51
ان کو پیدا کیا ہے۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إنَّ أهلَ الكتابَينِ افترقوا في دينِهِم على ثنتَينِ وسبعينَ مِلَّةً، وإنَّ هذِهِ الأُمَّةَ ستفترقُ على ثلاثٍ وسبعينَ مِلَّةً - يعني الأَهْواءَ - كلُّها في النّارِ إلّا واحدةٌ، وَهيَ الجماعةُ))’’اہل کتابین نے اپنے دین کو بہتر ملتوں میں تقسیم کر لیا اور یہ امت تہتر ملتوں میں منقسم ہو گی، سب کے سب دوزخی ہوں گے، ماسوا ایک کے، اور وہ ’’جماعت‘‘ ہو گی۔‘‘ ایک روایت میں ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ جماعت یا فرقہ کون سا ہو گا؟ فرمایا: ’’جو اس راستے پر ہو گا جو میرا اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے۔‘‘ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ کی رحمت کے اہل، اہل جماعت ہیں چاہے ان کے افراد اور ملک و وطن مختلف ہوں، جبکہ اہل معصیت اہل فرقہ ہیں چاہے ان کے افراد اور ملک و وطن ایک ہوں۔(مختصر ابن کثیر: ج 2/236) چنانچہ اس امت میں بھی کچھ ہی دیر بعد لوگوں نے اپنے رب کی طرف سے نازل شدہ ہدایت اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر باد کہنا شروع کر دیا، شہوات و خواہشات کے بھنور میں گھومنے لگے، اختلافات کی دلدل میں پھنستے چلے گئے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لوگوں کی آراء و خیالات کو سبقت دینے لگے، فلسفے کی گمراہیوں اور علم کلام کی موشگافیوں میں ایسے پڑے کہ اللہ کے راستے سے خود بھی بھٹکے اور دوسروں کو بھی بھٹکانے لگے اور شیطان نے دین کی صحیح صورت ان کے لوح ذہن سے دھندلانی شروع کر دی، اللہ کی یہ بات سچ نظر آنے لگی: