کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 47
راستے پر ڈال دیا، گردوغبار کے بادل چھٹ گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں پتھر دلوں کو موم کر دیا اور بہرے کانوں میں شنوائی کی صلاحیت پیدا کر دی۔ ﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ﴾(المائدہ: 67) ’’اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا جاتا ہے وہ آگے پہنچا دو اگر تم نے یہ نہ کیا تو(گویا)رسالت کی تبلیغ کا کام ہی نہ کیا۔‘‘ ظاہر ہے کہ اگر اللہ کے رسول تبلیغ رسالت کا کام نہیں کریں گے تو کون کرے گا جنہیں اللہ تعالیٰ نے جہانوں کے لئے رحمت کی خاطر رسول بنا کر بھیجا ہے اگر وہ بیان و تبیین کا کام سرانجام نہ دیتے تو کون دیتا؟ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ اپنے بندہ و رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بمنصب رسالت مخاطب ہیں اور یہ حکم دیتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے سب کا سب آگے پہنچا دیا جائے۔۔ آخر آپ کی امت نے اس بات کی گواہی دی کہ آپ نے حجۃ الوداع جیسے عظیم ترین اجتماع میں لی تھی جہاں پر تقریباً چالیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جم غفیر تھا، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے دوران فرمایا: ’’لوگو! تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟‘‘ سب نے کہا: ہم گواہ ہیں کہ آپ نے رسالت پہنچا دی، امانت ادا کر دی، اور امت کو نصیحت کا کام پورا کر دیا ہے۔ آپ انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر ان کی طرف کر کے کہتے((اللّٰهم هل بلغت))’’اے اللہ! میں نے پہنچا دیا ہے نا!۔