کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 43
سے کہ انبیائے کرام توحید کے متفق علیہ احکام کے ساتھ ساتھ شریعتیں مختلف لے کر مبعوث ہوئے ہیں۔۔ حلال و حرام کے بارے میں ان شریعتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔۔ اور وہ دین جس کا ماسوا اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں وہ توحید، دین و عبادت کو اللہ کے لئے خالص کرنا۔۔ اسی کو لے کر سبھی انبیاء کرام آتے رہے ہیں۔(تفسیر ابن کثیر: ج 2 ص 66) ہر رسول کے متبعین جو اس کے ساتھ ایمان لاتے تھے، اپنے رسول کی زندگی میں اس کی صحبت اختیار کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ گھل مل کر زندگی بسر کرتے تھے، علم حاصل کرتے تھے، دین سیکھتے تھے، اس کے نقش قدم پر چلتے، اس سے اپنے رب کی کتاب لے کر محفوظ کرتے، اس کے طریقوں اور سنتوں کی حفاظت کرتے، درپیش مشکلات کے بارے میں استفسار کرتے اور اپنی دنیا و آخرت کے تمام امور کے بارے میں براہ راست سوال کیا کرتے تھے۔ تاآنکہ جب رسول کے فوت ہو جانے پر اس کی قوم پر عرصہ دراز گزر جاتا، اہل وفا و صحبت اٹھ جاتے، نئی نسلیں جنم لیتیں، حوصلے پست اور ہمتیں کمزور پڑ جاتیں تو خواہشات و اہواء کا زور ہونے لگتا، شبہات جنم لینے لگتے، دل پتھر ہونا شروع ہو جاتے، پیروی و اقتدا کم ہونا شروع ہو جاتی، سنتیں غائب اور بدعتیں غالب ہونا شروع ہو جاتیں، حق، باطل آمیر ہونے لگتا، آسمانی کتابوں اور رسول کے اقوال میں بت پرست فلسفیوں کو ٹھونسا جانے لگتا اور عقل و منطق کی سان کس دی جاتی۔ حتیٰ کہ لوگ جو کبھی حق پر قائم ایک امت ہوا کرتے تھے اب اختلاف کرتے اور فرقہ فرقہ ہو جاتے۔ بقول قرآن: ﴿وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا﴾(یونس: 19)