کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 41
﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾(آل عمران: 19) ’’جس کسی نے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اپنانا چاہا تو وہ قطعاً قابل قبول نہ ہو گا اور روز قیامت وہ خسارے میں ہی رہے گا۔‘‘ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: انبیاء سب کے سب دین اسلام کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں اس کے علاوہ کوئی دین انسانیت کی ابتداء سے لے کر انتہاء تک کسی کا اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں(العبودیہ: ص 34)ایک اور جگہ کہتے ہیں: جہاں تک آسمانی کتابوں کا تعلق ہے جو انبیاء کرام سے تواتر کے ساتھ ملی ہیں تو ان میں سے اس بات کی قطعی صراحت ہے کہ اللہ رب العزت دین حنیف کے ماسواء کوئی دین قبول نہیں کرے گا۔ یہ دین حنیف اسلام ہے جس کا مطلب ہے کہ صرف ایک اللہ کی بغیر کسی کو شریک کئے عبادت کی جائے اور اس کی کتابوں، رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لایا جائے۔(فتاویٰ کبریٰ: ج1 ص 335) پھر فرماتے ہیں: آیت﴿أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾’’میرے رب نے قسط کا حکم فرمایا ہے اور یہ کہ ہر نماز میں اپنے رخ سیدھے کیا کرو اور اسی کو پکارا کرو سارے کا سارا دین اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے۔‘‘ اس آیت میں ’’قسط کا حکم دیا گیا ہے‘‘ اس سے مراد توحید کا حق ادا کرنا، پورا کرنا اور اس کے ساتھ انصاف کرنا جو کہ ایک اللہ کی عبادت ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اور یہ دین کی اصل اور اساس ہے، اس کے برعکس کا ارتکاب ایسا گناہ ہے