کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 4
قبول نہیں ہوتا اور عموماً بڑے انحرافات کا سبب بنتا ہے۔ تاریخ انسانی میں تحریکوں، جماعتوں اور امتوں کے بننے بگڑنے، پروان چڑھنے اور زوال پذیر ہونے اور پھر سے نئی یا پرانی ڈگر پر ابھرنے اور یوں بقا و فنا کی کشمکش سے گزرنے کا عمل پیہم جاری و ساری رہتا ہے۔ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو کہ انسانیت کی تاریخ میں عظیم ترین شخصیت ہیں، آسمانی ہدایات کے مطابق اس امت کی شکل میں ایک تحریک کھڑی کی تھی جس کا سب کچھ قیامت تک باقی رہنا یقینی امر ہے اور اس تحریک کو زندہ و قائم رکھنے والے لوگوں کا بھی ہر دور میں ایک مستقل اور مسلسل انداز سے باقی رہنا آسمانی خبر کی رُو سے قطعی اور حتمی ہے۔ اب وہ کون لوگ ہیں جو اس پیشگوئی کا مصداق بن کر اس عظیم ترین شخصیت کی دعوت برحق کا فکری تسلسل رہے۔ ان کی وہ آئیڈیالوجی کیا ہے، جو ان کے امتیاز کی اصل بنیاد رہی؟ اس تحریک کی تاسیس کن لوگوں کے ہاتھوں ہوئی اور کن کے ہاتھوں اس کی ترجمانی و تجدید کا کام ہوتا رہا؟ اس کے پیروکاروں کی درجہ بندی اور تقسیم مراتب کیونکر ہوتی رہی؟ اس سے انحرافات کو کس طرح ضبط میں لایا جاتا رہا اور اس کے مخالفوں کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کی جاتی رہی؟ پھر موجودہ دور میں اس کے دائرہ کی حدود کیا ہیں؟ اس کی ترجیحات کا محور کیا ہے؟ اس سے انحرافات کی شکل کیا ہے اور اس کو درپیش اصل چیلنج کون سے ہیں۔ فکروعمل میں اس کے کردار کو زندہ کرنے کے لئے آغاز کہاں سے ہوا اور زادراہ کی صورت کیا ہو؟
یہی سوالات اس کتاب کا موضوع ہیں۔