کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 374
دوسرے کی غلطی دیکھے تو اسے ممکنہ حد تک ہدایت اور نصح و ارشاد کی کوشش کرے، نہ کہ اسے برا بھلا کہنا اور اذیت دینا شروع کر دے، جہاں یہ ممکن نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھی کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلّف نہیں کرتا، چنانچہ ہر مسلمان فرد سے یہ مطلوب ہوتا ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی ایسا رخنہ یا دراڑ نظر میں کرے جہاں سے اس دین کو نقصان ہو سکتا ہے، پھر اگر اتنی ہمت اور صلاحیت رکھتا ہو تو خود اس کو موندنے کے لئے کھڑا ہو جائے، یا پھر دوسرے کو اس سے خبردار کرے اور ذمہ داری اٹھانے کی جانب توجہ دلائے۔ اس کے ساتھ ساتھ۔۔ بلکہ اسی دوران ہی۔۔ اسے یہ بھی چاہیے کہ وہ کسی دوسرے کے لئے ایسا فریضہ انجام دے جس کا وہ روز حساب اللہ عزوجل کو جواب بھی دے گا اور حساب بھی۔۔ بہرحال یہ تو کم از کم مطلوب ہے کہ ہر آدمی دوسرے کی کوششوں کا احترام کرے اور انہیں طعن و تشنیع اور تحقیر کا نشانہ نہ بنائے اس سے کوئی آگے بڑھے جو بات اسے سمجھ میں آئی ہے اور اسے صحیح سمجھتا ہے اسے دوسروں کو سمجھائے اور دعوت دینے میں حکمت اور موعظ حسنہ سے کام لے اور اس پر صبر بھی کرے۔ اس سے بھی کوئی آگے بڑھے تو نقطہ ہائے نظر اور طریق ہائے کار میں جتنا بھی اختلاف ہو، آدمی دوسرے سے۔۔ جبکہ وہ اس کا اہل ہو۔۔ مشورہ بھی کرے اور اس کی رائے کا احترام بھی۔ پھر اس سے بھی آگے بڑھنے کی توفیق ملے تو جس میدان میں بھی انسان فائدہ دے یا لے سکتا ہو اس میں دوسرے سے بھرپور تعاون کرے اور ایک دوسرے کے ساتھ کام میں تنسیق پیدا کرے، تاکہ سب کی سب کوششیں مل کر ایک زوردار آبشار کی طرح مشترکہ ہدف پر پڑیں۔ پھر آخر میں ان تقاضوں کی انتہائی صورت یہ ہے کہ شخصیتوں میں جتنا بھی امتیاز موجود ہے رہے مگر سب کے سب ایک جسد واحد کے اندر جسم