کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 372
اور ہم سے کیا کرانا چاہتا ہے اور جبریہ عقائد کے ملبے کا بار ابھی تک ذہنوں پر موجود ہے۔۔ جس پر کہ امت کی نسلوں کی نسلیں پروان چڑھتی رہی ہیں اور جن کو سمجھنے اور چھان پھٹک کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔۔ نتیجتاً یہ مختلف درجوں کے ساتھ بیشتر مسلمانوں کے فکر و سلوک میں سرایت کر چکے ہیں، اور یہی اس قسم کی سوچ اور اعتقاد کا اصل سبب ہے۔ سلف اور ائمہ امت نے اس مسئلہ کا پورے استیعاب اور حقیقت پسندی کے ساتھ احاطہ کیا ہے اور اللہ کے پیدا کردہ اٹل فطری قوانین کا باقاعدہ اکتشاف کیا ہے جو کہ کسی ایک فرد کے مقابلے میں دوسرے فرد یا ایک جماعت کے مقابلے میں کسی دوسری جماعت کی کوئی رعایت نہیں کرتے۔ انہوں نے یہ بھی سمجھا کہ ہمیشہ ہی نتائج کو ان کے مقدمات سے نتائج کو ان کی علتوں سے اور عواقب کو ان کے اسباب سے جوڑ دینا۔۔ اللہ ہی کے حکم و قدرت سے۔۔ ایک ایسا مستقل فطری قانون ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ ایسے نتائج جن کے وقوع پذیر ہونے کے لئے روئے زمین میں بلند ترین مرتبے کے اہل ایمان اور زاہد متقی ترین لوگ منتظر و خواہشمند ہوتے ہوں، یقیناً ایسے انسانوں کے حق میں جا سکتے ہیں جو صحیح اور طبعی اسباب و مقدمات کو اختیار کرتے ہوں چاہے وہ پوری دنیا کے چھٹے ہوئے بدمعاش کیوں نہ ہوں اور کافروں سے بڑھ کر کافر کیوں نہ ہوں، جبکہ مومن صرف اپنے ایمان اور اپنے ورع و تقویٰ پر اعتماد کئے بیٹھا رہے اور ان مقدمات کی جستجو کی تکلیف نہ کرے جن کو اللہ نے ان نتائج تک رسائی کے لئے پیدا کر رکھا ہے۔ ایسے آدمی کی استجابت کیسے ہو؟! اہل سنت کا اپنے زمانے کی زبان اور علوم و ثقافت کے علم و ادراک اور طبعی علوم کے تمام