کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 371
اللہ کے دین کو اس کی زمین کے اندر نظام و قانون سے بے دخل کر دینے کی صورت میں جو یہ فتنہ کبریٰ رونما ہوا ہے اور جس وقت حاضر دوچار ہے جماعت حق، فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کے وجود کو ختم کرنے میں نہ تو کامیاب ہوا ہے اور نہ ان شاءاللہ ایسا ہو سکے گا۔ اگر کچھ وقت کے لئے یہ جماعت امامت کبریٰ سے محروم ہو گئی ہے تو بھی اپنے وجود اور صف بندی و یگانت کی حفاظت کے بعد اس کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ پوری قوت سے تمام حالات و واقعات کا رخ اس فتنہ اولیٰ کی نیستی و نابودی کی سمت پھیرنے کی کوشش کرے۔۔ کہ اسی وقت کے دوسرے فتنے پھوٹ رہے ہیں۔۔ اور اس کا رخ ایک ایسی صحیح اور باصلاحیت قیادت کھڑی کرنے کی سمت کرنے کی کوشش کرے جو آخرکار اس جماعت کو پھر سے اقوام عالم سے آگے لانے اور خلافت اسلامی کے سائے میں انسانوں کی عملی زندگی میں اس شریعت کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس لانے کے لئے علم و عمل کے میدانوں میں اس کی رہبری کا فرض سر انجام دے۔ اس وقت بیشتر مسلمانوں کے ہاں۔۔ زبان قال سے نہ سہی تو زبان حال کی رو سے۔۔ جو یہ عام اعتقاد رائج ہے کہ اہل سنت عقائد کے التزام کی صورت میں اس جماعت سے خالی وابستگی نصرت الٰہی کی ضامن ہے اور پھر اس اعتقاد کی بنیاد پر فتح و نصرت کے انتظار میں تسلی سے بیٹھ رہا جائے، حقیقت میں عقیدہ اہل سنت پر بنیادی ضرب ہے اور نصرت الٰہی کے راستے میں بہت پیچیدہ رکاوٹ ہے۔ مسئلہ قدر کو جس طرح ائمہ و سلف امت نے سمجھا تھا، اس میں جو خلل واقع ہوا ہے۔۔ اور ان دو باتوں کو باہم خلط کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے