کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 370
پھر دوسرے نمبر پر، واقع اور اپنے گردوپیش کا علم حاصل کرے جو کہ اس کے معاشرے کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ یہ علم دقیق بھی ہونا چاہیے اور مبنی بر استقراء بھی، جس کی بنیاد پر وہ اس صحیح حکم شرعی تک رسائی کے قابل ہو سکے جو اس واقع کے لئے مطلوب ہے۔ اور یوں عقیدہ و عمل کی بنیاد اٹھے۔ ایک مسلمان جو اپنے رب کے ساتھ اپنے آپ کے ساتھ صدق و سچائی سے کام لیتا ہے، اس کا یہ بھی فرض ہے کہ(مذکورہ)نظری علم اور واقعاتی علم کی مسلسل اور پیہم بحث و تحقیق کے دوران کسی بھی حکم کے انتخاب یا کسی بھی فیصلے سے پہلے اہل ذکر اور ہر شعبے میں دسترس رکھنے والے اہل علم سے رجوع کرے کیونکہ وہ اپنے رب کے سامنے اسی بات کا جوابدہ ہو گا۔ اگر امام(خلیفہ)موجود نہ ہو تو اہل حل و عقد تو ہوں گے، اور اگر یہ نہ ہوں تو علماء مجتہدین ہوں گے، اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو اپنے اپنے شعبے میں تخصص رکھنے والے اہل علم تو بہرحال ہوں گے، یہ بھی ناممکن ہو جائے تو اپنے زمان و مکان کے زیادہ علم رکھنے والے لوگوں سے رجوع ہوں۔ یوں۔۔ اپنے وسیع اور جامع مفہوم کے ساتھ۔۔ جماعت سنت کے اندر اہل علم میں خوب سے خوب تر کی تلاش کی جائے۔ مسلمان جس قدر اس ’’شوریٰ‘‘ کا دائرہ وسیع کر لے اور علم و عمل میں قابل اعتماد لوگوں کی طرف۔۔ جس کے بارے میں ذاتی تعلقات یا اچھی شہرت کی بنیاد پر جانا جا سکتا ہے۔۔ جتنا زیادہ رجوع کر لے، اسی قدر وہ اللہ کے سامنے جوابدہی سے عہدہ برآ ہو گا اور جس قدر وہ اپنے موقف میں صواب سے قریب تر ہو گا، اور اسی دوران میں مسلمان بھی جس قدر باہم قریب تر ہوں گے، اتنا ہی ان میں تحریکی ہم آہنگی بڑھے گی اور اللہ کے فضل سے اپنی سمت میں ان کی رفتار زیادہ اور قوی تر ہو گی۔