کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 369
اس کے خلاف، بہرحال کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں پوری طرح سوچ لینا چاہیے کہ اس کے انتخاب کردہ فیصلہ کو اختیار کرنے والے ایک ایک آدمی کی نیکیاں یا گناہوں کے انبار اس کی کمر پر ہر صورت میں رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر شوریٰ اور افہام و تفہیم کو فرض کیا ہے جس کا اطلاق اس کے عوام سے پہلے ان کے امراء، مجتہدین، علماء اور ائمہ پر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ علم بھی اور حق بھی کسی ایک انسان کی جاگیر نہیں، چاہے وہ امام ہو یا مجتہد، اور یہ کہ علم کا جو حصہ ایک کے پاس ہے وہ دوسرے کے پاس نہیں ہوتا، ایک شخص کے ہاں جس چیز کی کمی ہو وہ دوسرا پوری کر سکتا ہے، اور یہ بھی کہ فیصلہ اپناتے وقت علماء اور اہل تخصص۔۔ جو کہ اپنے اپنے میدان میں پوری دسترس رکھتے ہوں۔۔ کی تعداد جیسے جیسے زیادہ ہوتی ہے ویسے ہی غلطی کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔ اب جب امت کے اہل حل و عقد، جو کہ مسلمانوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اہل اجتہاد ہیں نہ اہل فتویٰ، نہ علمی امور میں، نہ واقعاتی استقراء میں اور نہ ہی مختلف شعبوں کے متخصصانہ امور میں۔ اس بناء پر ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ سب سے پہلے اپنے دین کی اصل بنیادوں کو سمجھے اور اس دائرے کی معرفت حاصل کرے جس سے ایک ایسے انسان کا نکلنا ناممکن تصور ہو جو دنیا و آخرت میں نجات کا متلاشی ہو جو کہ قرآن، سنت اور فقہ سلف صالح کی صورت میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ شریعت کے ان عمومی مقاصد اور مصالح معتبرہ کا علم بھی حاصل کرے جن کے دائرے میں رہتے ہوئے دین و دنیا کے امور میں اجتہاد ہوا کرتا ہے اور جو کہ دین کے(مذکورہ)عمومی دائرے کے ادراک کے بعد ہی سمجھ میں آتے ہیں۔