کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 368
پھر اس کے ساتھ اپنے زمانہ و گردوپیش کے علم اور اس حقیقی مناط(بنیاد)کی بحث و استقراء پر بھی اس طرح رکا اور صبر کیا جائے جس پر ہمیں شریعت کا صحیح صحیح حکم فٹ کرنا ہے۔۔ اور اس سلسلے میں ان لوگوں کے علم و تحقیق سے مدد لی جائے جو دور حاضر پر صحیح نظر اور تخصص کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ واقع اور زمانے کی رگ کو سمجھنے کے لئے ہر میدان میں بہت ضبط کے ساتھ مقیاسات اور معلومات کو کام میں لایا جائے۔ اور پھر آخر میں، اس تمام تر کام کے جو بھی دیانتدارنتائج برآمد ہوں، ان پر گامزن ہوا اور صبر کیا جائے اور خواہش نفس کو صرف اور صرف حق کے فیصلے کے تابع کر دیا جائے، یہ بہرحال نہیں ہونا چاہیے کہ پہلے نتائج نکالنے کی جلدی کی جائے اور پھر اس کے بعد ایسے مقدمات کی تلاش شروع کی جائے جو ان نتائج کو ثابت کرتے ہوں، کیونکہ اس قسم کا ’’صبر‘‘ اللہ کے لئے اخلاص نفس، ظاہر و باطن میں صدق وفا اور لا تقدموا بين يدي اللّٰه ورسوله ایسے حکم کی اطاعت کے جذبے کا اصل قاتل ہے۔ ایک مسلمان جو اللہ کے ساتھ اور اپنے نفس کے ساتھ صدق و سچائی سے کام لیتا ہے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی بھی راستے یا طریقہ کار کے انتخاب سے پہلے، وقت کے ان مسائل کے بارے میں دو ٹوک انداز میں اپنا موقف متعین کرے، چاہے یہ مسائل نظری ہوں یا عملی، اس کے ساتھ اس کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ پوری دقت کے ساتھ۔۔ جس کا اللہ اس سے حساب لے گا۔۔ اپنے مبلغ علم کا تعین کرے جس کے بل پر وہ کسی بھی اعتقاد یا عمل کی بابت فیصلہ کرنے کا مجاز بنتا ہے جو کہ قیامت کے ہولناک دن اس کے اعمال کے ترازو میں بہر صورت موجود ہو گا اور جس کے نتائج کا سامنا بھی، چاہے وہ نتائج اس کے حق میں ہوں یا