کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 361
یہ سیکولرازم جو جاہلیت کی آغوش میں جنم لے کے اسی کے ہاتھوں پلا بڑھا ہے کھلا کفر ہے، جس میں نہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات ہے، نہ اس مسئلے میں کوئی ہیر پھیر ہو سکتا ہے اور نہ کسی شک و شبے کی گنجائش ہے۔ اس میں اصل الجھن بھی، ہیر پھیر بھی تلبیس حقیقت بھی سیکولرازم کے علمبرداروں کی پیدا کردہ ہے کیونکہ انہیں علم ہے کہ مسلمان ملکوں میں ان کی جاہلیت کی بقاء صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ کھل کر سامنے آئے بغیر مسلمان عوام الناس کے ساتھ ہیر پھیر اور تلبیس کے ساتھ پیش آیا جائے۔ اسی کام کے لیے(اسلام کے)جھوٹے اور جعلی دعوے اور لیبل استعمال ہو رہے ہیں تاکہ مسلمان ان کی حقیقت اور ان کے منصوبوں کی باطنی سطح تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔ [1] دوسری طرف نہ صرف عوام الناس کے عقیدہ
[1] اچھے بھلوں کے لیے ابھی تک یہ معمہ ہے کہ پاکستان میں دین کو سیاست سے کیسے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ نجانے اتنی سادہ بات سمجھنی مشکل کیوں ہو گئی کہ جب آئین و نظام سازی پر عملاً حق پارلیمنٹ کا تسلیم کر لیا جائے تو پھر چونکہ مسلمان شریعت کی بے حرمتی تو کر ہی نہیں سکتے! اس لئے اس پورے مذہبی جوش و جذبے اور عقیدت کے ساتھ شریعت کو دستوری دفعات کا فریم کر کے ’’بچوں کی پہنچ سے دور‘‘ ’’ایوان کے کسی بالاتر طاق‘‘میں سجا دیا جاتا ہے۔ رہا نظام و قانون کا معاملہ تو جب اصولاً یہ طے ہو جائے گا کہ قانون وہ کہلائے گا جو پارلیمنٹ پاس کرے، تو پھر قانون کا رتبہ پانے کے لیے شریعت کا نہ تو اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہونا کافی ہوا، نہ جبریل علیہ السلام کا اور نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ابلاغ و بیان فرمانا نہ قرآن میں بیان ہونا اور نہ بخاری اور مسلم میں روایت ہونا۔ یہ سب کچھ سر آنکھوں پر ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر قانون کے درجے کو نہیں پہنچتا۔ پھر جب یہ حق پارلیمنٹ کا تسلیم کر لیا جائے تو وہ قرآن کی ایک آیت کو بھی قانون کا ویسا ہی درجہ عطا کر سکتی ہے جیسا فلم انڈسٹری کی ایک فاحشہ کے مطالبے کو یوں پارلیمنٹ کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اس کی اور قرآن کی قانونی پوزیشن اس نظام میں ایک سی ہوتی ہے۔ قانون دان ’’تکلف‘‘ سے کام نہ لیں تو اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ اسی کفر کو امر کرنے کے لئے آئین کے بنیادی حقوق کا باب سیکولر ازم کے اس مشہور و معروف عقیدے کا ہوبہو عکاش ہے کہ کسی انسان پر اگر کوئی پابندی ہو سکتی ہے تو وہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہے، اس کے باہر ہر انسان کو ہر معاملے میں اس بناء پر حقوق و فرائض(آپ بے تکلف ہونا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں حلال و حرام) قانون کی نظر میں وہ ہوں گے جو آئین اور قانون خود مقرر کرے۔ پھر آئین کا آرٹیکل(4) سیکولرازم کے اس بنیادی فلسفے کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے کہ جرم اور سزا کا تعین صرف اس ملک میں رائج قانون کرے گا، یوں اللہ اور رسول جو بھی کہتے رہیں جرم صرف وہ ہو گا جسے مروجہ قانون جرم کہتا ہو اور سزا بھی صرف وہی اور اتنی ہی روا ہو گی جو یہ قانون مقرر کرے گا۔۔ مزید وضاحت کے لئے چند مثالیں (1) ہر محلے اور گلی کے اندر آپ نے ہندومت اور سفلہ پن کی تعلیم دینے والی پاکستانی اور انڈین فلموں کے اڈے تو ضرور دیکھ رکھے ہوں گے۔ ان میں غیر قانونی فلمیں جانے دیجئے، صرف ایسی فلمیں نکال لیجئے جو غلیظ اور برہنہ تو ضرور ہوں مگر سنسر قوانین سے جواز کی باقاعدہ سند یافتہ ہوں۔ ’’سادہ لوحی‘‘ میں آ کر اگر آپ ہلاکت اور عذاب کو دعوت دینے والے اس گھناؤنے جرم کو پاکستان کی کسی عدالت میں چیلنج کرنا چاہیں تو آپ کو کیا جواب ملے گا؟ یہی ناکہ دین میں یہ جرم ضرور ہو گا مگر قانون کی نظر میں جرم نہیں! پھر دین اور نظام و قانون جدا جدا ہوئے نا! بتائیے اور کافری کیا ہے؟ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (2) پاکستان میں کسی جگہ اگر کوئی بااثر مذہبی آدمی غلاظت سے لتھڑی ہوئی ان لچر فلموں کو بزور بند کرانے کی کوشش کرے تو آپ کو کیا معلوم ہے کہ آئین کے آرٹیکل 4 کی نظر میں اس نے پاپ کیا ہے؟ اس کا پاپ یہ ہے کہ جس چیز سے آئین اور قانون نے منع نہیں کیا، ویڈیو سینٹر مالکان کو اس ’’جائز‘‘ کام سے منع کر کے اور Wrongful Confinement کا مرتکب ہو کے اس نے قانون کا ’’تقدس‘‘ پامال کیا ہے؟ سنسر قوانین کی رو سے ایک ’’جائز‘‘ اور ’’قانونی حق‘‘ کے استعمال میں رکاوٹ بنے تو قانون کے آرٹیکل 4 ہی کے بموجب ’’معزز‘‘ شہریوں کو ہراساں کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم میں قانون اسے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ کون نہیں جانتا کہ ان معاملات میں قرآن کی آیات نہیں، قانون کی دفعات معتبر ہیں؟ ذرا سوچ کے بتائیے کہ تو پاکستان میں قرآن کا مسجد کے علاوہ کیا مناسب مقام رہ جاتا ہے؟(3) پاکستان کے نظام میں شراب حرام ہے مگر سود حلال! اس کی وجہ؟ ہر دین کے حلال و حرام اپنے ہوتے ہیں۔ جی ہاں قرآن مجید نے قانون اور نظام کو دین قرار دیا ہے۔ بادشاہ مصر کے قانون کو اللہ نے دین الملک(بادشاہ مصر کا دین) کہا ہے﴿مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ﴾ یوسف علیہ السلام بادشاہ کے دین(قانون) کی رو سے بھائی کو اپنے پاس نہ رکھ سکتے تھے۔ سو پاکستان کے دین الملک کے حلال و حرام اگر کبھی اسلام کے حلال و حرام سے متفق یا مختلف ہو جائیں تو یہ محض اتفاق ہو گا۔ دراصل کسی بھی نظام یا دین کی تفصیلات اور جزئیات کی اپنی کوئی بھی حیثیت نہیں ہوتی کہ اس بنیاد پر ہم اس سے اپنے دین کی موافقت یا مخالفت تلاش کرتے پھریں یا اس میں کچھ جزئیات کو نکالنے یا کچھ کو شامل کرانے پر ضد کریں۔ دنیا کا ہر نظام کچھ نہ کچھ جزئیات میں کسی دوسرے نظام سے متفق ہوا ہی کرتا ہے۔ اصل میں نظام اور دین کے اندر دیکھا یہ جاتا ہے کہ چلتی کس کی ہے اور قانوناً یہ حیثیت کس کی ہے کہ روک دے تو رکنا پڑے اور حکم یا اشارہ بھی کرے تو اسے قانون مانا جائے۔ اگر پاکستان میں ایسا اختیار صرف اللہ کا ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کوئی اس کا شریک نہیں تو یہاں اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں لیکن اگر یہ حق صرف اس کا نہیں تو اس میں جو اللہ کے ساتھ شریک ہوتا ہے وہ اس نظام کا معبود ہے اور اس آسمان تلے بدترین مخلوق ان معبودوں کی آسامیوں کے لئے آپ داڑھی والوں کا انتخاب کریں یا ٹخنوں سے اونچی شلوار والوں کا اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔ ہر آدمی، قبل اسے موت آ لے اور فرشتے سوال کر لیں کہ بتا تیرا دین کیا تھا، اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ جس نظام کے سائے میں زندگی بسر کر رہا ہے وہ اللہ کا دین ہے یا دین الملک۔