کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 360
’’شک‘‘ تک رہے اور وہ بھی ایک قلیل تعداد کے نزدیک!! آج عقلیت پسند(نیچری)مکتبہ فکر(Nationalism)(یا ’’عوام کی حکومت کے ذریعے‘‘، ’’شخصی آزادی‘‘، ’’عوام طاقت یا اختیار کا سرچشمہ ہیں‘‘ آزادی ثقافت اور ’’آزادی فکر‘‘ ایسے نعروں کا چلن جو عام ہوا ہے یا پھر بعض لوگوں نے اسلام پسندوں کے جذبات کو سرد کرنے کے لئے ’’شریعت کو ارتقاء دینے‘‘، ’’وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے شریعت کی رواداری‘‘ اور ’’شریعت کی قانون سازی‘‘ اور(Islamisation)ایسے سلوگن بلند کئے ہیں، اور اگر کسی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے ’’دین اور حکومت میں تفریق‘‘، ’’سیاست میں دین نہیں اور دین میں سیاست نہیں‘‘، ’’دین خدا کا اور وطن سب کا‘‘، ’’حکومت کا حق حکومت کو دو اور اللہ کا حق اللہ کو دو‘‘ ایسے نعرے بھی الاپ دیے ہیں، تو کیا یہی کام وہ لوگ نہیں کر رہے جن کے شیطانی ذرائع ابلاغ میں ’’بصیرت‘‘ یا ’’روحانی پروگرام‘‘ ایسے عنوان کے تحت دین(دھرم)کو بھی ’’حصہ‘‘ دیا گیا ہوتا ہے؟ وہ حکمران جن کے جاہلی قوانین حکم میں شخصی قوانین(Personal laws)بھی شامل ہوتے ہیں جن میں ہر کسی کو پرائیویٹ معاملات اور مضامین کے لئے بھی مخصوص ہوتا ہے، تو ان کی انتہائے نگارش یہی ہے کہ دین کا ’’صحیح مقام‘‘ صرف مسجد ہے۔ یہ لوگ زندگی میں ایک بار اگر اللہ کے گھر میں ’’فریضہ حج‘‘ ادا کرنے چلے جاتے ہیں، جس دھوم دھام سے کوریج دینے کے لئے ذرائع ابلاغ کو خصوصی ہدایت بھی ہوتی ہے، تو مشرق تا مغرب دشمنان خدا کے گھروں کی زیارت اور طواف کے لئے ہر دم عازم سفر رہتے ہیں جہاں سے منہج و فکر بھی لے کر آتے ہیں، قانون و تشریع بھی وہیں سے لیتے ہیں، امرونہی بھی انہیں وہیں سے صادر ہوتا ہے اور حلال و حرام بھی!!