کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 359
مگر انتہائی خباثت اور مکروفریب کے ساتھ انہیں زبردست دعوؤں کے ساتھ دین سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان عوام ان افکار سے بدک نہ جائیں اس لئے چاہتے ہیں کہ ان عوام کے قلب و ذہن میں سیکولرازم تھوڑا تھوڑا کر کے اس طرح راسخ کر دیا جائے جیسے کم رفتار زہر جسم میں سرایت کر جاتا ہے۔۔ قصہ کوتاہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی ٹوٹنے نہ پائے۔ غور کیا جائے تو کیا یہ وہی افکار نہیں جن کا زہر سیکولرازم کے نام نہاد ’’مسلمان‘‘ دانشور ’’دین خدا کا اور وطن سب کا‘‘ یا ’’سیاست میں دین نہیں اور دین میں سیاست نہیں‘‘ ایسے نعروں کی صورت میں جسد اسلامی کو گھولنا چاہتے ہیں، دین اسلام سے منسوب منافقین اور زندیقوں کی ہمیشہ سے یہ ریت چلی آئی ہے کہ صریح اور واضح طور پر انکار نہ کیا جائے اور نہ ہی اسلام دشمنی کو عریاں ہونے دیا جائے۔ ان کا ہتھیار اصل میں ہوتا ہی تلبیس اور پردہ پوشی ہے تاکہ معرکہ و صف آرائی کی نوبت ہی نہ آئے اور اگر کبھی آ ہی جائے تو اس سے پہلے یہ مسلمانوں کی صفوں میں بہت دور تک گھس چکے ہوں، اور یوں اہل ایمان کو انگشت بدندان چھوڑ کے بیک دم بساط الٹ دی جائے۔ اسی مقصد کے لئے تو یہ سیکولر ارباب اختیار و دانش اور اس طرح کے زندیق ایسے نعرے اور شعارات رائج کر رہے ہیں جن کے ذریعے ممکنہ حد تک مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو فریب کے جال میں لا سکیں اور دوسری طرف تھوڑی تعداد کے ان حضرات کو بھی ’’جذبات‘‘ میں نہ آنے دیں جو سیکولر نعرے الاپنے والوں کی ’’نیک نیتی اور اسلام دوستی‘‘ کو صرف مشکوک سمجھتے ہیں! جبکہ درحقیقت یہ اسلام کی جڑوں پر کلہاڑے چلا رہے ہوتے ہیں مگر اس فنکاری اور دھیرے پن سے کہ مسئلہ صرف