کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 357
حکم اور فیصل بنانا اور اللہ رب العزت کو چھوڑ کر دوسرے طاغوتوں کے حکم و فیصلہ، قانون سازی و تشریع اور اطاعت کو قبول کرنا ہے۔ سیکولرازم کے اس شعار کا مفہوم یہی ہے کہ انسان کی عملی اجتماعی زندگی ’’دین‘‘ پر قائم نہ ہو۔ چنانچہ اس بناء پر سیکولرازم بدیہی ایسا جاہلی نظام ہے جس کے دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے نہ اعتقاد میں گنجائش ہے، نہ نظام میں اور نہ قوانین و شرائع میں، بلکہ وہ قرآن کی نص کے بموجب کافر نظام ہے:﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللّٰهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ﴾’’اور وہ لوگ جو اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق حکم و فیصلہ نہیں کرتے وہی کافر ہیں۔‘‘ کیا اس کے بعد اہل سنت کے قلب و ذہن کے تمام گوشوں میں سیکولرازم کے خلاف انتہائی درجے کی مزاحمت اور یکسوئی کے ناگزیر ہونے میں شک یا تردد کی کوئی بھی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شک کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں، لیکن مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے جو اسلام کے بنیادی حقائق روپوش ہوئے ہیں اور اس زمانے کے منحرف افکار نے دین کا اصل چہرہ مسخ کر رکھا ہے، تو اس وجہ سے بے شمار لوگ ایسے بے قیمت شبہات پیدا کر رہے ہیں کہ اگر واقعاتی لحاظ سے اس قدر لٹیا نہ ڈوبی ہوتی تو ان پر ایک اچٹتی نظر ڈالنا بھی وقت کا ضیاع ہوتا۔ ایک شبہہ تو یہ ہے کہ بعض لوگوں کو ایسے نظاموں، حکومتوں اور افراط پر لفظ کفر اور جاہلیت کا اطلاق کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے جن پر خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کا اطلاق کیا ہے۔ اس مشکل کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ نظام اور ارباب نظام۔۔ خاص طور پر جمہوری سیکولر نظام۔۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کرتے، اس وجہ