کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 354
ہو عمل میں لانے کے لئے مقصد مطلق اور بڑے فرض کو قربان کر دیا جائے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جب مقصود شریعت معلوم ہو جائے تو اس کے حصول کے لئے دوسرے راستوں کو چھوڑ کے قریب ترین اور سب سے سیدھا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اب اسلامی جماعتوں، تنظیموں، دھڑوں اور مکتبہ ہائے فکر کی اس وقت کی صورت حال پر مختصر گفتگو کے بعد روئے سخن ہم ایک ایسی حقیقت کی جانب پھیرنا چاہتے ہیں جو ہمارے خیال میں کسی ایسے شخص کی نظر سے ہرگز اوجھل نہیں ہونی چاہیے جو اس دین کے فہم و فراست سے بہرہ ور ہے۔ پھر بھی یہ خدشہ ہے کہ اہل سنت و الجماعت کی اس دین سے منسوب گمراہ فرقوں کے ساتھ کشمکش اور پیہم معرکہ آرائی کے اندر یہ حقیقت چھپ گئی ہے یا ارتکاز نظر سے محروم ہو گئی ہے۔ اس دور میں اہل سنت کو درپیش جو چیلنج ہیں ان میں اگر علی الاطلاق خطرناک ترین نہ سہی تو خطرناک ترین چیلنجوں میں ایک بہرحال یہ ہے کہ ان تمام مصنوعی لیبلوں کو منہدم کر دیا جائے، ان تمام افکار و آراء کے چہروں سے نقاب کھینچ کر پھاڑ دئیے جائیں اور ایسے تمام شعارات کو بے لباس کر دیا جائے جن کے پیچھے کافر سیکولرازم اپنے افکار، افراد اور پارٹیوں جماعتوں سمیت اپنا چہرہ چھپانے میں کامیاب ہوتا ہے اور جس کا مقصد اس امت کے قلب و ذہن کو زہر آلود کرنا ہے۔ سیکولرازم کی حقیقت سے نقاب کشائی اور اس سے نبرد آزمائی کے لئے اس بات کی اولین ضرورت ہے کہ خود اہل سنت کے ذہنوں میں اور دلوں میں اس کفر کے خلاف شدید ترین مزاحمت اور برسر پیکار ہونے کی اہمیت کو واضح اور دو ٹوک قطعی حیثیت نہ دی گئی تو اہل سنت قوتیں خود بھی اور ان کے علماء اور دانشوران مفکرین بھی اس نازک دور میں اپنے