کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 353
جماعتیں مل کے اس وسیع تر ’’جماعت ام‘‘ کی تشکیل کریں جو کہ اہل سنت کے ہاں ایک جامع مفہوم رکھتی ہے، اور اس سلسلے میں ہر ایسے وہمی اور خیالی حصار کو نظر انداز کر دیں جو کسی جماعت نے اپنے گرد تعمیر کر رکھا ہو یا کسی اور نے اس کے گرد قائم کر رکھا ہو، اسی طرح مصنوعی طور پر قائم ان علاقائی حدود کو بھی نظر انداز کر دیا جائے جس نے امت مسلمہ کے جسد کو وطنوں، عصبیتوں اور وفاداری، وابستگی اور ولاء کی ملکی اور علاقائی قسم کی مکانی بنیادوں اور قیادتوں، گروہوں، تنظیموں اور جماعتوں وغیرہ کی صورت میں کاٹ کر حصے بخرے کر دیا ہے، اسی طرح ایسے تمام لیبلوں، شخصیتوں، امتیازات اور شعارات کو بھی ملیامیٹ کر دیں جن کا اللہ عزوجل کے میزان حق میں ایک ذرہ وزن بھی نہیں ہے۔ آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے دینی جماعتوں کے ذریعے سے دین کا کام کرنے میں شرعاً کوئی حرج ہے نہ عقلاً اور ایک منظّم اور منسق انداز کے اکٹھ کے ذریعے فرد کی جہد اور خدمات کو دوسروں کی جدوجہد کے ساتھ ملائے اس دین کے کام لانا شرعی طور پر واجب اور ضروری بھی ہے اور بدیہی طور پر مطلوب بھی، بلکہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ مقصد پورا ہونے کی صورت کیو ہو اس سے کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ اسی طرح ایسے عہد، میثاق یا شرعی عقود کی پابندی بھی شرعاً ثابت اور واجب ہے جو بھی کسی ایسے واضح قسم کے امر کی ادائیگی اور طرفین میں پہلے سے طے شدہ اچھے اور صالح مقصد کی انجام دہی کے لئے ہو، لیکن غلطی اور منہج اہل سنت و الجماعت سے انحراف یہ ہے کہ جماعت صغیرہ کے ساتھ ولاء اور وابستگی کو جماعت کبیرہ(الجماعۃ)پر مقدم کر دیا جائے، جماعت صغیرہ کی وہمی مصلحت کو جماعت کبیرہ کی حقیقی اور شرعی مصلحت پر فوقیت دے دی جائے، اور ایک ایسی مصلحت کو جو راجح نہیں بلکہ مرجوح