کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 352
جہاں تک اجتماعی اور منظّم کام کا تعلق ہے تو وہ شرعی طور پر بھی ضروری ہے اور عقلی و واقعاتی لحاظ سے بھی مطلوب ہے۔ خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، یہ اللہ تعالیٰ کا ایک فطری قانون ہے، کیونکہ وہ کام اور کارنامے جو جماعت سے مطلوب ہوتے ہیں وہ نہ تو اکیلا فرد انجام دے سکتا ہے اور نہ منتشر افراد۔ تاہم اس اجتماعی کام کو بطور دلیل آڑ بنانے کی بجائے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خود جماعت بھی وہ مطلوبہ نتائج برآمد کرنے کے قابل اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے افراد میں موجودہ صلاحتیوں اور فطری قابلیتوں کا پورے تنوع کے ساتھ ایسا سائنٹیفک اور منظّم استعمال نہیں کرتی جو ان تمام افراد کے کام میں بہترین تنسیق اور زبردست قسم کی ہم آہنگی پیدا کرنے سے وقوع پذیر ہو اور پھر اس کام سے اس کے کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ جماعت کی عمومی اور شرعی مصلحت ہی پوری ہوتی ہو۔ اسی طرح جماعت اس وقت تک کامیاب بھی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے افراد۔۔ اور سب سے پہلے اس کے رہنما۔۔ ان اصولوں سے پوری طرح واقف اور ان کے قائل نہ ہوں خاص طور پر جب تک یہ بات ذہن نشین نہ ہو کہ ایک فرد بطور فرد۔۔ چاہے وہ کیسی ہی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا حامل ہو اور کیسا ہی ملکہ اور قدرت حاصل کیوں نہ ہو۔۔ اللہ تعالیٰ کے فطری قوانین سے بہرحال نہیں ٹکرا سکتا کہ وہ اکیلا ایسے کارنامے سر انجام دیدے جن کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک جماعت سے ہوا کرتا ہے۔ اس کی بجائے اسے جو کچھ حاصل ہے وہ جماعت کی مصلحت کی خاطر سب کچھ چھپا دے اور اس کے ساتھ فرد کے کام مجموعی طور پر جماعت کے کام میں کوئی خلل بھی واقع نہ ہوتا ہو۔ پھر بعینہٖ اسی طرح دینی جماعتوں میں سے ہر جماعت آخرکار کسی دوسری جماعت کے سامنے ایک فرد ہی کی حیثیت رکھتی ہے جہاں یہ سب