کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 351
بات نہیں۔اور جب تک اہل سنت کے لئے اساسی امور کا بنیادی طور پر التزام رہنے وہاں اس کو برداشت کرنا، اس کے لئے گنجائش پیدا کرنا، اور کھلے دل اور کھلے ذہن سے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کی بنیاد یہ رہے کہ بصورت نزاع مسئلہ کو کتاب، سنت اور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ تبع تابعین رحمہم اللہ ایسے سلف صالح کے فہم و فقہ کی طرف لوٹا دیا جائے۔۔ آخر جن امور میں ان کا اختلاف ہو سکتا تھا وہاں ہم سے کیوں نہیں ہو سکتا۔۔؟ اور کیا ہم میں دین کا علم و حرص ان سے بھی زیادہ ہے۔۔؟ دور حاضر کی بیشتر جماعتوں میں جو ایسے ناموں، پہچانوں اور شعارات کے لئے تعصب پایا جاتا ہے جن کی اللہ نے کوئی دلیل و برہان نہیں اتار رکھی اور تقویٰ، عمل صالح اور تمام مسلمانوں کے لئے مجموعی طور پر ’’ولاء‘‘ ایسی بنیاد کی بجائے شخصیات،(جماعتی یا تنظیمی)ناموں اور لیبلوں سے تعلق و نسبت کی بنیاد پر علیحدگی و مفاصلت بھی اختیار کی جاتی ہے اور ولاء و وفاداری بھی، پھر حق کو بھی شرعی مصادر سے لے کر قبول نہیں کیا جاتا کہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے بلکہ اسے بھی ایک قسم کی گروہی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو کہ بہت تنگ ہوتی ہے، یا پھر گروہی و جماعتی قیادت کے نقطۂ نظر یا مزاج و انداز کے راستے سے حق تک رسائی ہوتی ہے۔۔ تو یہ وہ چیز ہے جو ہر آدمی کی عقل و سلوک کو اس کی تنظیم، جماعت یا گروہ کے دائرے میں ہی جام کر دیتی ہے اور یہی وہ بات ہے جو ہر جماعت کے گرد فرضی اور وہمی حدود کی وہ دیوار کھڑی کر دیتی ہے جس سے اس کے اندر موجود افراد آخر کار یہ باور کر لیتے ہیں کہ صرف وہی جماعت حق ہے اور اس کے علاوہ سب کچھ یا غلط ہے یا باطل یا عظیم تر انحراف۔