کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 350
واقعیت اور پوری تاریخ سے کوئی میل نہیں رکھتی۔ یہ ذہنیت خود اس بات کی دلیل ہے کہ اشیاء کو ان کی حقیقت کے ساتھ دیکھنے اور امور واقع اور گردوپیش کے ساتھ تعامل اختیار کرنے میں اہل سنت کا جو منہج ہے اس کو سمجھا ہی نہیں گیا۔
سلف اور ائمہ اہل سنت میں بھی اختلاف ہوا تھا، بہت سے علمی و عملی مسائل میں ان کے اجتہادات بھی متعدد ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں ان کی فکری و تحریکی روشیں بھی متعدد ہوئیں اور ان میں سے بعض کا اجتہاد خطاء اور تاویل بعید ایسی غلطیوں میں پڑ جانا بھی وقوع پذیر ہوا، لیکن نیت کا اخلاص اور للہیت، قول و عمل کی سچائی، علم شرعی اور خلق نبوی کے التزام کی وجہ سے ان میں اس بات کی تڑپ بدستور رہی ہے کہ اس سب کچھ کے ذریعے بھی وحدت کا کلمہ باقی رہے اور وہ برابر ’’جماعت‘‘ آداب بحث و تنقید اور مخالف کے ساتھ صبر ایسے اصول کی بھی حفاظت کرتے رہے، دوسروں کی غلطی چاہے کتنی بھی ہو اس کے لئے ہدایت اور خیر کی دعا بھی ہوتی رہی اور دوسری طرف ہر آدمی بھی جس امر کو صحیح، حق اور صواب سمجھتا اس کا التزام بھی کرتا اور دوسرے کو اس کا قائل کرنے کی کوشش بھی۔ وجہ یہ تھی کہ یہ حقیقت ان کے ذہنوں میں پوری طرح واضح اور روشن تھی کہ ان کا باہمی تعاون، ان کی وسیع تر ’’جماعت‘‘ کی حفاظت اور بچاؤ، آپس کی شیرازہ بندی، وحدت کلمہ اور اپنے مشترک دشمن کے سامنے ایک صف کی صورت میں سینہ سپر ہو جانا، ان کے لئے زندگی بھی ہے، فتح و نصرت بھی اور رحمت الٰہی بھی۔
جہاں تک ذہن و فہم کے اختلاف، صلاحیتوں کے مختلف اور یکساں نہ ہونے اور اہلیتوں کے تنوع کی بات ہے تو یہ ایک حقیقت واقعہ بھی ہے، قانون فطرت بھی اور شرعاً بھی بری