کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 349
رہے۔ اب اس وقت جو جماعتی اور گروہی تنگ نظری بیشتر دینی جماعتوں اور تنظیموں پر چھائی ہوئی ہے، ناموں اور شخصیات کے لئے اندھا تعصب اور ہر گروہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ حق صرف اسی کے پاس ہے اور دوسرے تو لستم علي شئ والی حالت پر ہیں، شخصی مزاح و انداز اور ذاتی پسند و ناپسند کو حکم شرعی اور علمی و فقہی کسوٹی پر مقدم کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کی اجتماعی شرع مصلحتوں پر اپنی جماعت کی مصلحت کو فوقیت دی جاتی ہے اور کسی دوسرے کے لئے اہل سنت ہی کے دائرے میں رہتے ہوئے سوچ، فکر اور مخالف اجتہاد اختیار کرنے کا حق ضبط کر لینے کا چلن عام ہے، اس پر مستزاد یہ کہ علم و منہج اور سلوک و اخلاق میں ایسا جاذب نظر نمونہ اور اسوہ بھی کسی کے پاس نہیں جیسا کہ بزرگان ائمہ اہل سنت ہر دور اور ہر زمانے میں پیش کرتے رہے ہیں۔۔ تو اس ساری فصل ہی کا یہ ثمرہ ہے جو ہمیں اس وقت تن داغ داغ کی صورت میں نظر آتا ہے اور جسے ہم بیشتر دینی جماعتوں اور گروہوں میں سر چڑھ کے بول رہی ہے، جس کی بناء پر ہر جماعت یہ سمجھ کر کام کر رہی ہے کہ صرف وہی اہل سنت، فرقۂ ناجیہ اور طائفہ منصورہ ہے اور پورے دین کی تمام تر ذمہ دار صرف وہی ایک ہے اور صرف وہی اس قابل ہے کہ سب کچھ وہ کرے گی، امت مسلمہ کو درپیش تمام خامیاں وہی دور کرے گی، سبھی رخنے یہ اکیلی پر کر سکے گی، تمام مرحلے بھی اکیلی طے کرے گی اور تمام معرکے بھی یہی سر کرے گی، اور نقطہ صفر سے آغاز کا کام بھی ہمیشہ یہی کرے گی تاآنکہ خلافت بھی یہی قائم کرے، خود پوری دنیا کا چارج لے اور تمام امور کے انتظام و انصرام کی چابیاں اپنے ہاتھوں میں تھام لے!!! اس قسم کی سوچ اور ذہنیت اس دین کے لئے اچنبھی ہے اور اس دین کی