کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 348
تک گنجائش نکلتی بھی ہے تو آخر اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ایک منزل مقصود اور مشترکہ ہدف تک کے سلسلے میں بھی ایک جماعت دوسری سے تعاون نہ کرے اور ہر جماعت(اپنی موجودہ شکل محفوظ رکھتے ہوئے)ہی سہی ’’جماعت ام‘‘ یعنی اہل سنت و الجماعت کے اس شرعی دائرہ عام میں رہتے ہوئے دوسری سے تعاون نہ کرے جس میں کہ اجتہادات اور نقطہ ہائے نظر کے متعدد ہونے کی نہ صرف گنجائش موجود ہے بلکہ شرعی طور پر معتبر حدود کے اندر رہتے ہوئے اس کی اجازت بھی ہے؟ اس عجیب و غریب قسم کی صورتحال پر غور کیا جائے جس کا کہ اہل سنت و الجماعت کے شعار کی حامل جماعتیں شکار ہیں تو اس کی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ منہج اہل سنت و الجماعت کی حقیقت کا جامع، عمیق اور شرعی فہم و تفقہ اصل میں ناپید ہے اور اذہان میں اخلاق اور فکر و عمل کا وہ دائرہ عام موجود ہی نہیں جس سے ائمہ(اہل)سنت اور سلف صالح امتیاز قائم کرتے تھے۔ ’’جماعت‘‘ جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں بیک وقت سبب بھی ہے اور نتیجہ بھی۔ چنانچہ مجتمع ہونے اور شیرازہ بندی کرنے کی شدید خواہش و کوشش، تقویٰ اور دوسروں کے لئے خیر کی تڑپ رکھنے کی اساس پر تمام مسلمانوں سے موالات، ان کی ہدایت کے لئے دوڑ دھوپ، حکمت و موعظت حسنہ کے ساتھ ان کی خیر خواہی و خیر کوشی، اور ہر حال میں اس کام پر صبر کرنا و عزیمت اختیار کرنا، یہ سب سبب بنتا ہے کہ لوگوں پر اللہ کی رحمت نازل ہو اور اس کے انعامات بڑھ جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و انعامات ہی میں یہ شامل ہے کہ ان کا اجتماع اور شیرازہ بندی قائم رہے اور ایک دوسرے سے موالات پختہ دوائم