کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 347
و شنید کریں تو کئی ایک حقائق تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جن سے ان جماعتوں کے اپنے بارے میں بھی اور دوسروں کے بارے میں بھی ان کے عام موقف کی ترجمانی ہوتی ہے۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: الف: کوئی ایسا واضح ٹھوس اور مکمل جامع قسم کا علمی و عملی منہج موجود نہیں جس کی بنیاد پر ان جماعتوں اور گروہوں میں سے کسی ایک کا دوسرے سے امتیاز ہوتا ہو اور جو ان جماعتوں کی موجودگی اور تعدد کے لئے وجہ جواز بنتا ہو۔ ب: کوئی واضح قسم کی شرعی یا دو ٹوک عقلی دلیل بھی نہیں ملتی جو ان جماعتوں کے ایک ہی مشترک مقاصد یا غرض و غایت کے سلسلے میں بھی تعاون نہ کرنے کے لئے جواز ہو سکتا ہو۔ د۔ قیادتوں کی سطح پر ان بیشتر جماعتوں، اور افراد و کارکنان کی سطح پر تو تمام جماعتوں میں شریعت کے اصول اور فروع کا علم یا ناپید ہے، یا انتہائی کم اور یا پھر بہت کمزور۔ ھ۔ ان جماعتوں اور گروہوں کے افراد کے فکر و کردار میں ان بنیادی امور اور مسائل کے سلسلے میں کوئی بھی حقیقی امتیازات وجود نہیں رکھتے جن کی بناء پر وہ دائرہ عام تشکیل پاتا ہے جو اہل سنت کا دوسروں سے امتیاز قائم کرتا ہے۔ یہ تمام حقائق سامنے آتے ہیں تو آدمی کے ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب صورت حال ایسی ہے تو ان بیشتر دینی جماعتوں کے مابین موجود مخاصمت کا آخر کیا جواز ہے جو کہ سب کی سب اہل سنت و الجماعت کے شعار ہی کی حامل ہیں؟ اگر ذہن و فہم کے یکساں نہ ہونے اور یوں اجتہاد کے نتیجے میں متعدد آراء ہونے کی وجہ سے ان جماعتوں کے اختیار کردہ طریق ہائے کار اور اسالیب کے متعدد ہو جانے کی کسی حد