کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 346
ہیں اور یہ سب ندی نالے آخرکار ایک بڑے دریا میں ملتے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی گہری نیند سے بیداری، اس کے سوئے ہوئے جسم کو متحرک کر دینے اور اس دین کو اس کا حقیقی قیادتی کردار سونپنے سے عبارت ہے جس کی انسانیت ایک عرصے سے منتظر ہے۔ اسی طرح ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرتے کہ ان جماعتوں یا گروہوں میں علمی اور عملی ہر دو لحاظ سے رخنے موجود ہیں جو فکری بھی ہیں اور منہجی بھی اور پھر اس سے بھی انکار نہیں کہ ان میں سے جو کچھ جماعتیں ان فکری رخنوں کی درستی اور علمی و عملی مناہج کی تکمیل کے لئے مخلصانہ کوشش بھی کرتی ہیں لیکن ایسی کمزوریاں اور رخنے اس بات کا جواز بہرحال نہیں کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے مخالفانہ و معاندانہ روش اختیار کرنے اور علیحدگی و الزام تراشی کے ساتھ چڑھائی شروع کر دے۔ جبکہ اس بات کی کوئی شرعی دلیل ہے نہ علم و عقل اس کی اجازت دیتے ہیں۔ کجا یہ کہ صورتحال بھی ایسی ہے کہ کسی ایک جماعت ہی اگر وہی اور ویسی ہی کمزور و کوتاہی نہیں تو بھی کوئی اور خانہ یا بہت سے خانے خالی ہیں اور رخنے بہرحال موجود ہیں۔ بلکہ شاید یہ سمجھنے میں کوئی مبالغہ نہ ہو کہ اکثر دینی جماعتیں، گروہ اور اکٹھ اپنی تمام تر ایجابیات و سلبیات کے ساتھ ایک سے جوہر اور ایک سی حقیقت کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ کسی شخص مزاج، ذہنی میلان و رجحان یا پھر انفرادی طور پر کوئی ملکہ حاصل ہونے کی بناء پر ہوتا ہے جو کسی کو اس جماعت میں کھینچ لے جاتا ہے اور کسی کو دوسری میں، پھر جو جاہلی عصبیت اور جماعتی ہویٰ و تعصب اور شخصیاتی میلان اور جذباتیت کے مظاہرے ہوتے ہیں اس کا تو ذکر ہی جانے دیجئے۔ (7) ایسی بعض جماعتوں یا گروہوں کے افراد اور قیادتوں کے ساتھ آپ گفت