کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 345
اور اگر ہر ایک آدمی اپنی جماعت ہی کے ساتھ رہتے ہوئے کسی دوسرے مسلمان بھائی سے ایسے امور میں تعاون شروع کر دے جہاں تعاون ہو سکتا ہو اور کسی اسلوب، طریقہ کار اور جماعت پر بھی آنچ نہ آتی ہو تو آخر اس سے کیا دینی نقصان ہو جاتا ہے؟ ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ مجموعی طور پر اس وقت کے حالات اور گردوپیش کا تجزیہ و تفسیر کرنے اور اس میں درپیش مسائل کے اسلام حل کی ابتداء کرنے کے لئے طریق کار تجویز کرنے میں، دینی میدان میں موجود ہر جماعت یا گروہ کا اپنا خاص اجتہاد ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ہر جماعت کا اس سلسلے میں اپنا اجتہاد ہونے کی بناء پر جو اختلاف وقوع پذیر ہوتا ہے وہ ہر گروہ کے تحریکی انداز و ادا کو اپنے رنگ میں رنگتا ہے، لیکن ایسا اختلاف فکری اور سلوکی روش میں اثر انداز نہ ہو۔ یعنی بنیادی طور پر اہل سنت و الجماعت کے فکر و سلوک کے التزام پر تو سبھی متفق ہوں تاہم جہاں تک وقت کے مسائل کا تجزیہ و تفسیر اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے طریق کار کے تعین میں اختلاف کا تعلق ہے تو ایک جماعت، عقائد اور ان کی مسلمانوں میں ترویج کے پہلو پر زیادہ زور دیتی ہے دوسری تربیت اور تیاری پر تیسری سیاسی کام اور تحریکی شعور پھیلانے پر، کوئی گروہ اور جماعت سنت کی دعوت اور سلوک و آداب میں بدعات کی بیخ کنی پر، کوئی گروہ عامۃ الناس میں اسلامی تصورات کی ترویج اور اسلامی تعلیمات کی پابندی کرانے پر تذکیر کرتا ہے اور کوئی جماعت عسکری تیاری اور باطل سے نبرد آزمائی پر توجہ مرکوز کرتی ہے غرض اس طرح کے بے شمار اجتہادات ہیں جو اس وقت ہمارے خیال میں سب کے سب اسلام کی ضرورت ہیں اور سبھی اسلام ہی میں شامل ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ سب مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے