کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 344
طرز عمل کی سلف کے ہاں کون سی شرعی دلیل یا عملی مثال ملتی ہے؟ اور اس بات میں کون سی چیز مانع ہے کہ سبھی لوگ اپنی اپنی جماعت کے ذریعے اور اپنی موجودہ صورتحال کے لحاظ سے ایک مشترک منزل مقصود کی طرف گامزن ہوں جہاں ایک دوسرے کے قدم گامزن ہوں جہاں ایک دوسرے کے قدم مضبوط کئے جائیں نہ کہ ایسی راہوں کا انتخاب کیا جائے جو آپس میں الجھتی رہیں اور دوسرے کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور نتیجتاً کوئی بھی آگے نہ بڑھ سکے؟ اب جو اس قسم کے سوالات کے شرعی یا عقلی طور پر واضح قسم کے جوابات نہیں ملتے اس طرح کی بعض جماعتوں یا دھڑوں اور گروہوں کے قائدین یا راہنماؤں کے موقف کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کیونکہ اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ حقیقت کو جانچنے اور پرکھنے کے لئے ذرا گہرائی اور علمی انداز سے گفتگو کریں، کہ اس کے کسی دوسرے کے ساتھ کیا حقیقی اختلافات ہیں تو آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ان میں اصول اہل سنت و الجماعت سے التزام پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ سب لوگ ائمہ اور علمی مراجع پر متفق ہیں اور بلکہ سبھی لوگ حقیقت اور معنی کے لحاظ تقریباً ایک سے ہی اقوال و مسائل پر متفق ہیں اگرچہ الفاظ اور تعبیرات مختلف ہوں اس طرح مجموعی طور پر ایک سے اہداف اور وسائل تک پر بھی متفق ہیں اگرچہ انداز و اطوار اور ہتھیار مختلف رکھتے ہوں۔ اب جب ایسا ہی ہے تو بجائے ایک دوسرے پر چڑھائی، مفاصلت اور الزام تراشی کے آخر دوسرے کو کم از کم اپنی راہ پر چلنے کے لئے چھوڑ کیوں نہیں دیا جاتا اور کم از کم غیر جانبدار موقف ہی کیوں اپنا نہیں لیا جاتا۔ جبکہ ایسی مخاصمت کی کوئی شرعی اور علمی دلیل وجود نہیں رکھتی