کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 343
و اتباع، ائمہ اربعہ رحمہم اللہ ایسے دیگر سنت کے مشہور و معروف اور معتبر ائمہ کے فہم و فقہ سے مدد لیتے ہوئے‘‘ اسی طرح یہ جماعتیں اور دھڑے رافضی، قدری، جہمی یا مرجئہ ایسی کسی دعوت کا شعار بھی بلند نہیں کرتیں اور نہ ہی بنیادی طور پر کسی ایسے عقیدے کے قائل ہیں۔ ہاں اگر زیادہ سے زیادہ کچھ ہے بھی تو اتنا کہ باطل و گمراہ فرقوں کے بہت سے افکار امت مسلمہ کے وجود میں سرایت کر چکے ہیں اور بہت سے مسلمانوں کے ذہنوں کو متاثر کر چکے ہیں لیکن ان جماعتوں نے ایسے افکار کو باقاعدہ طور پر اپنے عقائد میں شامل کر کے نہیں اپنایا ہوتا، بلکہ زیادہ تر افکار کی حیثیت کے بارے میں پوری ہوش مندی اور ان کے خلاف سنت ہونے کے بارے میں پوری واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے اور یہ افکار بزرگوں یا قائدین وغیرہ کی تقلید کی وجہ سے غیر محسوس انداز میں عام ہوتے ہیں جبکہ پوری طرح علمی انداز سے نہ ان افکار کو دیکھا ہوتا ہے اور نہ ان کے قائل ہوتے ہیں بلکہ اپنے بزرگوں یا قائدین کے تعصب کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ تعجب انگیز بات یہ بھی ہے کہ اگر آپ ان جماعتوں یا گروہوں میں سے کسی ایک کے(قائدین کو چھوڑ کے)کچھ افراد کو لیں تو ایک اور بہت زبردست حقیقت سے سامنا ہو گا اور وہ کچھ یہ کہ افراد کسی دوسری جماعت کے افراد سے کوئی خاص امتیاز نہیں رکھتے، نہ فکر میں اور نہ عملی زندگی میں، بلکہ واضح قسم کے فکری خطوط اور کردار و عمل کے ٹھوس امتیاز کے ناپید ہونے کی وجہ سے ان افراد کے لئے ان سوالوں کی وضاحت انتہائی دشوار ہو جاتی ہے کہ آخر اس جماعت کے راستے سے دین کا کام کیوں ہو؟ دوسروں کو کسی اور جماعت یا گروہ کے ذریعے سے کام کرنے سے کیوں روکا جائے؟ دوسری جماعتوں یا گروہوں سے کس بنیاد پر مفاصلت اور مفارقت اختیار کی جا رہی ہے؟ اس قسم کے