کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 342
سے دست کش ہوتے ہیں اور نہ ہی کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع سلف کے گرد باہم آمادہ تعاون اور اپنے اصل دشمنوں کے سامنے ایک صف کی صورت میں کھڑے ہونے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ (6) یہاں اب اسلامی ممالک میں پھیلی ہوئی بعض اسلامی دینی جماعتوں کے موقف کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے جو کہ اہل سنت سے منسوب ہیں اور ان کے بیشتر افراد مجموعی اور اجمالی طور پر اہل سنت ہی کے عقائد رکھتے ہیں۔ [1] یہ جماعتیں ماسوائے ایران پورے عالم اسلام میں وجود رکھتی ہیں۔ ان اسلامی و دینی جماعتوں کی صورتحال بہت ہی عجیب ہے چاہے وہ روایتی انداز کی دینی جماعتیں ہوں یا مجموعوں اور تنظیموں کی صورت میں موجود ایسے اکٹھ جو دینی کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ایسی بعض جماعتوں کے شعارات کو دیکھا جائے تو جس پہلی حقیقت سے ذہن ٹکراتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے مابین کوئی بھی ایسے حقیقی امتیازات نظر نہیں آتے جو ان کے ایک دورے پر طعن و تشنیع کا وجہ جواز بنتے ہوں۔ اگر ہم پورے غور سے ایسی جماعتوں کے افکار، مناہج اور شعارات کا جائزہ لیں اور گہرائی سے مطالعہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ دین کا کام کرنے والی یہ سب جماعتیں اصولی طور پر تقریباً انہی عام اصول پر اتفاق رکھتی ہیں جن پر زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود اہل سنت اکٹھے ہوتے ہیں اور جن پر اہل بدعات و اھواء سے مفارقت اختیار کرتے ہیں۔ یعنی کہ ’’قرآن و سنت اور صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم و ائمہ سلف صالحین رحمہم اللہ کے اجتماع کا التزام
[1] سوائے ایسی جماعتوں کے جن کے اصول اور مناہج میں شذوذ ملتا ہے مثلاً منحرف قسم کے صوفی فرقے اور سلسلے، خوارج کے فرقے اور اسی طرح کی دیگر جماعتیں جو اہل سنت و جماعت کے اصول اور منہج پر کاربند نہیں ہوتیں۔