کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 341
کے لئے راہ ہموار ہو سکے۔ باطنیت کا محور جو کہ در حقیقت مشرق میں ایران سے شروع ہو کر شام سے گزرتے ہوئے مغرب میں شمالی افریقہ کے ملک لیبیا تک پھیلا ہوا ہے اکثر حالات کا بغور جائزہ لینے والے کو اس خطرے کی حقیقت اور حجم کا اندازہ ہو سکتا ہے جو کہ اس علاقے میں اہل سنت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے خاص طور پر اس لئے بھی کہ اس محور کے ارکان یہودونصاریٰ سے بھی تعاون اور مدد لے رہے ہیں تاکہ اس دشمنی کی تاریخ اور گہری ہو جائیں اور یہ سب ایک چین بن کر عالم اسلامی کو ہر طرف سے کاری ضرب لگائیں۔ نہایت افسوس ناک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ بیشتر اہل سنت اپنے واقع اور گردوپیش کو بالکل نہیں سمجھ رہے نہ علاقائی سطح پر اور نہ بین الاقوامی سطح پر، یہ اس اپنی طویل تاریخ اور ان مصائب سے بھی کوئی سبق نہیں لیتے جو ان باطنیوں کے ہاتھوں ان کے اسلاف کو اٹھانے پڑے ہیں، بلکہ یہ دین کے دروس و نصوص اور اپنے ائمہ کے اقوال سے بھی کوئی عقل نہیں لیتے جو ان اہل بدعات کے خطرے سے خبردار کرنے کے لئے کافی ہیں جو یہود اور نصاریٰ سے کم خطرناک نہیں، بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ بعض تحریکیں اور جماعتیں رافضی انقلاب کی تعریف و چرچا کرتی نہیں تھکتیں، ان سے قربت اور تعاون کی دعوت دے رہی ہیں اور اپنے رسالوں اور مجلوں کے صفحات ان کی خبروں اور دعوت کے لئے پیش کرتی ہیں، جبکہ یہ جماعتیں آپس میں مخالفت بھی رکھتی ہیں، ایک دوسرے پر چڑھائی بھی کرتی ہیں اور ایسے امور کی بناء پر مفاصلت و اتہام بازی کرتی ہیں جن کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری رکھی، یہاں وہ ان ظاہری و شکلی اختلافات کو نہیں چھوڑتے نہ ہی بے کار و بے مقصدکشمکش