کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 340
کے وجود اور مناہج و افکار سبب کو داؤں پر لگائے ہوئے ہے بلکہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ایسے بہت سے گروہ جو اہل سنت کے مجموعی اور وسیع تر دائرے میں بنیادی حیثیت کے مالک ہیں اولین اور حقیقی دشمن اور بیرونی خطرے کو تو چھوڑ دیتے ہیں مگر آپس میں معرکہ آرائی جاری رکھتے ہیں اپنے درمیان ایسے امور کو علیحدگی و مفاصلت کی بنیاد بناتے ہیں جن پر ہمارے خیال میں کوئی شرعی حجت یا علمی بنیاد نہیں ہوتی ہاں کچھ خاص ناموں، نعروں، شعارات، شخصیات اور جماعتوں کا تعصب ضرور ہوتا ہے جس کے ساتھ شرعی علم کی کمی اور اپنے گردوپیش کے بارے میں عمیق اور مکمل و مفصل حالات سے بیگانگی اور اہل سنت و الجماعت کو درپیش چیلنجوں کی حقیقت سے بہت دور کی کہیں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور جو اس وقت مورچہ بندیاں اور معرکہ آرائیں ہو رہی ہیں ان کے شرعی مفاسد کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس وقت اسلام کے نقشے پر جو سیاسی حادثات و واقعات رو پذیر ہو رہے ہیں ان کو بغور دیکھنے والا آدمی اس بھیانک خطرے کی ہیبت ناکی کا باآسانی اندازہ کر سکتا ہے جو رافضہ کی شکل میں رونما ہو رہا ہے خاص طور پر جب سے ایران میں ان کی حکومت قائم ہو گئی ہے اور یہ ملک اس فتنے کو دنیا بھر میں برآمد کرنے کے لئے مرکز اور منبع کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس فتنے کو وہ اسلامی انقلاب کا نام دیتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت ہی پرفریب نعرے اچھال رہے ہیں جن کی تہ میں وہ مذہب سنت کے خلاف اپنے دلوں میں بیٹھا ہوا کینہ و بغض چھپائے بیٹھے ہیں اور انہی نعروں کے ذریعے وہ سنی علاقوں میں اپنے انقلاب کے فریب زدہ اور ان نعروں کی حقیقت سے غافل و جاہل لوگوں کو استعمال کر کے ایک کشمکش برپا کرنا چاہتے ہیں تاکہ اہل سنت کو اندر سے کھوکھلا کر کے یہاں رافضیت کے جھکڑ چلانے