کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 34
بختی یا بدبختی اور مکافات عمل کا احساس پایا جاتا ہے تاہم اس مکافات اور خوش بختی و بدبختی کی تفصیلات رسولوں کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ رسولوں کا کام یہ رہا ہے کہ ان فطرتوں کو نکھارتے رہے اور ان میں جو ودیعت کیا گیا تھا اس کی تذکیر و تفصیل فرماتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل صریح ہمیشہ نقل صحیح کی موافقت کرتی رہی ہے اور شریعت ہمیشہ فطرت کے مطابق رہی ہے۔ ان میں ایسا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے کہ آپس میں ٹکرانے کی نوبت نہیں آئی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان افعال و اعمال سے توبہ و استغفار تو لازم آتی ہے جو لاعلمی اور جہل کی حالت میں اس وقت سرزد ہوئے جب ابھی ان اعمال کا برا یا بد ہونا معلوم نہ ہوا تھا، کہ ابھی رسول کی بعثت عمل میں نہ آئی اور انسان پر حجت قائم نہیں ہو چکی تھی، مگر جہاں تک عذاب کا تعلق ہے تو فرمان الٰہی ہے: ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا﴾(الاسراء: 15) ’’اور ہم عذاب نہیں دیتے تاآنکہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔‘‘ اسی طرح بعثت رسول سے قبل لوگوں کے اعمال قبیح اور بد تو تھے مگر ان پر حجت رسول کے آنے سے ہی پوری ہوتی ہے، یہ جمہور کا قول ہے۔۔۔ سلف اور خلف میں سے جمہور علماء کا یہ مسلک ہے کہ بعثت رسول سے پہلے لوگ شرک اور جاہلیت کے جن کاموں میں پڑے ہوئے تھے وہ شر، قباحت اور بدی کے حامل تو تھے مگر عذاب کے مستحق وہ بعثت رسول کے بعد ٹھہرتے ہیں۔(مجموعۃ الفتاویٰ: 11/675)