کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 336
اہل سنت کے پابند ہوں، اگر تلاش کرنے پر کوئی ایسا اکٹھ دریافت نہ ہو تو اسے حق کی دعوت دینی چاہیے اور ایسا اکٹھ پیدا کرنے کا کام کرنا چاہیے، بزرگان سلف اور دور دراز کے شہروں اور ملکوں میں لوگوں کو مذہب اہل سنت اور جماعت کے قیام کی دعوت دیتے تھے۔ چنانچہ ابن وضاح رحمہ اللہ نے کئی ایک راویوں سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت اسد بن موسیٰ [1] رحمہ اللہ نے جو اسد السنہ یعنی ’’شیر سنت‘‘ کے نام سے مشہور ہیں اسد بن فرات [2] کو خط لکھا تھا کہ: ’’میرے بھائی میں آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ ان سطور کے لکھنے کی وجہ آپ کے بارے میں میری اچھی شنید ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں سے انصاف، مذہب سنت کے اظہار و نصرت اور اہل بدعت کی مخالفت و نقاب کشائی اور سرکوبی ایسے کاموں کی توفیق سے نواز رکھا ہے جس کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے آپ کے ہاتھوں اہل بدعت کی گوشمالی ہوئی اہل سنت کو سرفرازی نصیب ہوئی ہے اور آپ کو اہل بدعات کے فساد کے مدمقابل قوت حاصل ہوئی ہے، چنانچہ اللہ نے آپ کو ان کی ذلت کا سبب بنا دیا
[1] مراد ہے اسد بن موسیٰ ابن ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بن مروان الاسدی جو کہ حدیث میں صاحب مسند ہیں، ان کو اسد السنہ کا لقب دیا گیا تھا، نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں، تصنیف نہ کرتے تو اچھا ہوتا(212ھ میں وفات پائی) کتاب الزھد ظاہریہ دمشق رقم 101 من کتاب الجامع(حاشیہ البدع)۔ [2] مراد ہے ابو عبداللہ اسد بن فرات بن سنان مولی سلیم بن قیس پیدائش 145ھ مقام حران دیار بکر وفات 213 دوسری روایت میں وفات 214ھ ان کی وفات سرقوسہ کے محاصرے کے دوران ہوئی جہاں وہ لشکر کے قاضی و امیر تھے سسلی میں دفن ہوئے، علی ابن زیاد سے علم پڑھا اور امام مالک رحمہ اللہ سے موطا کا سماع کیا ثقہ راوی تھے۔(حاشیہ البدع۔ البدع والنہی عنہا ابن وضاح ص 5-7 تحقیق احمد دھمان۔