کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 335
حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ’’تلزم جماعت المسلمين و امامهم‘‘ والی حدیث کا یہی مطلب ہے۔ تیسری صورت تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شرعی امام سرے سے ہی نہ ہو، عادل نہ جائز، جیسا کہ امت مسلمہ کو درپیش ضیاع و کسمپرسی کے موجودہ بعض مراحل میں ہو رہا ہے، تاہم افراد کی صورت میں یا جماعتوں کی شکل میں اہل سنت و الجماعت وجود رکھتی ہو۔ اس صورت حال میں مسلمان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس جماعت سے التزام و تعلق رکھے اس کے ساتھ مل کر اللہ کی طرف دعوت دے اور یہ سب مل کے اقامت دین اور مذہب اہل سنت کی دعوت کے فریضے کی انجام دہی کے لئے کوشش کریں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے یہی مطلب نکلتا ہے: ’’تلزم جماعت المسلمين و امامهم‘‘ چنانچہ جہاں صحابی دریافت کرتے ہیں: ’’فان لم يكن لهم جماعة ولا امام‘‘ اگر مسلمانوں کی نہ جماعت ہو اور نہ امام۔ تو اس سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ مگر امام شرعی موجود نہ ہو تو پھر اس جماعت ہی کا التزام واجب ہے۔ چوتھی صورت چوتھی صورت یہ درپیش ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کا نہ تو کوئی امام ہو اور نہ ہی مذہب اہل سنت کی داعی جماعت، یہ صورتحال بڑے فتنوں کے ظہور کے دوران اور بعض مقامات پر پیش آ سکتی ہے جہاں مذہب اہل سنت سے التزام رکھنے والا مسلمان غربت و اجنبیت کا شکار ہو، نہ تو اسے کوئی مددگار میسر ہو اور نہ اہل بدعات کے علاوہ کوئی جائے پناہ ملتی ہو۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں مسلمان کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو تلاش کرے جو مذہب