کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 33
اور فضل و کرم کا بھی مالک ہے، کہ بنی آدم کو صرف اس میثاق فطرت کی بناء پر عذاب نہ دے اور نہ کسی کی پکڑے کرے جب تک رسالت کے ذریعے ان پر حجت قائم نہ کرے۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا﴾(الاسراء: 15) ’’اور ہم عذاب نہیں دیتے تاآنکہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔‘‘ چنانچہ اس نے پے در پے رسولوں کو مبعوث کیا کہ لوگوں کو اپنے مالک اور خالق کے ساتھ ان کا پرانا عہدومیثاق ذہن نشین کرا دیں اور اس عظیم ترین امانت کی یاد دہانی کرا دیں جو ان کے رب نے اپنی زمین میں ان کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے اور ان کو یہ حکم دیں کہ مالک کی زمین میں خلافت کے تقاضوں کی پابندی کریں۔ اور اس طریقے سے کوئی آخری عذرلنگ تک نہ رہنے پائے کہ اولاد آدم جس کا سہارا لے سکے۔ ﴿رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ’’خوشخبری سنانے والے اور عذاب سے ڈرانے والے پیغمبر مبعوث کئے ہیں تاکہ لوگوں کے پاس اللہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے۔‘‘(النساء: 165) امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: انسان کے ذہن و عقل میں سب سے زیادہ واضح اور جلی انداز میں یہ بات ودیعت کی گئی ہے کہ اس کائنات کا خالق بے انتہا کامل اور تمام عیوب اور نقائص سے پاک ہے۔ اسی معرفت کی یاد دہانی اور تفصیل کے لئے رسول آتے رہے۔ اسی طرح انسان کی فطرت میں اس جہاں کے علاوہ کسی دوسرے جہان میں نفوس انسانی کی خوش