کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 329
و آرزو، انسداد ضرر اور انتہائی درجے کی شفقت و رحمت اور دعائے خیر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ذاتی خواہش نفس، دنیوی عداوت، باہمی حسد و بغض اور قیادت کے تنازعہ و رسہ کشی ایسے کسی ادنیٰ سے شبہ کو بھی کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ بظاہر تو آدمی خیر خواہی ظاہر کرے اور دل میں کوئی ذاتی رنجش یا انتقام چھپا ہو اور یوں وہ اللہ کے دئیے کسی اختیار اور نیک مقصد کے بغیر اس کی عزت، مال یا جان پر ہاتھ ڈال لے اور یہ کام بحق شریعت نہ ہو بلکہ اپنے نفس کی تسکین کے لئے ہو۔ دوم: ہجر و مفاصلت یا بدست و زبان انکار علی المنکر کا کام ایسے شرعی طریقہ عمل سے ہونا چاہیے جس کا حکم دین میں دیا گیا ہے اور جس کی بناء پر مختلف احوال کی رعایت کرتے ہوئے شریعت کے اعتبار کردہ مصالح حاصل ہوتے ہوں اور مفاسد دور ہوتے ہوں وگرنہ یہ عمل مشروع نہ ہو گا۔ چنانچہ ہجر و مفاصلت مثال کے طور پر اگر بدعتی کو سیدھا نہ کر سکے، بلکہ الٹا کسی ضعیف و ناتواں آدمی پر جو کہ ہجر کا راستہ اختیار کرتا ہے بدعتی کا شر مزید بڑھ جائے گا اور یوں اس عمل کا نقصان اس کے فائدہ و مصلحت پر حاوی ہو جائے گا تو ایسی صورت میں ہجر مشروع نہیں ہو گا۔ بلکہ بسا اوقات بعض بدعتی لوگوں کے ساتھ تالیف قلب کا رویہ ہجر روکجی سے زیادہ بارآور ہوتا ہے۔ اصل تو ہی ہے کہ مسلمانوں کا جان و مال اور عزت حرام اور معصوم ہوتی ہے اب اگر کہیں بدعتی اور غیر بدعتی ملے جلے ہوں تو ہر ایک سے الگ الگ وہی رویہ برتنا ہو گا جس کا وہ شرعاً مستحق ہے اور اس سے سرزد ہونے والے عمل کے لئے مناسب ہے۔ کسی ایک کی غلطی کسی دوسرے کے سر نہیں ڈالی جا سکتی اور نہ ہی ایک بدعت کا جواب دوسری بدعت سے دینا چاہیے۔ اسی طرح ایک مسلمان کے لئے اصل تو یہی ہے کہ وہ مسلمانوں