کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 327
ہو تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ سلف کسی ایسے داعی بدعت کو واجب قتل تک سمجھتے ہیں جو مخلوق کو گمراہ کر رہا ہو، کیونکہ انسان دین پر تیشے چلاتا ہے، سلف چاہے اس کے کافر ہونے کے قائل ہوں یا نہ ہوں اصل اعتبار دنیوی سزاؤں کی علت کا ہے کیونکہ اس سزا کا مقصد دفع ظلم و عدوان اور رفع ضرر و فساد ہے جبکہ سزائے اخروی کا ہونا یا نہ ہونا دنیوی سزا کے ہونے یا نہ ہونے پر موقوف نہیں ہے۔ بسا اوقات کسی غلط اجتہاد اور تاویل بعید کی وجہ سے بھی انسان سے بدعت سرزد ہو سکتی ہے، چنانچہ ایسے شخص میں سنت و بدعت اور خیر و شر ملے جلے ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کے ہاں جو سنت اور خیر موجود ہے اس کے بقدر اس سے ولاء رکھنی چاہیے اور اس پر وہ مستحق ثواب بھی ہوتا ہے اور جو اس کے ہاں بدعت اور شر ہوتا ہے اسی کے بقدر و مستوجب عداوت و سزا ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایسے آدمی کا جنازہ امام اور علماء و اصحاب دین اس غرض سے ترک بھی کر دیتے ہیں کہ ظاہری احکام میں اس کی بدعت کی زجر کی جائے۔ تاہم دوسروں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا جنازہ ادا کریں جبکہ یہ باطن میں اس کے لئے استغفار کرتے ہیں، البتہ ایسے لوگ جن کا نفاق ظاہر و معلوم ہو جائے جیسے رافضہ کے نصیریہ اور اسماعیلیہ ایسے غالی گروہ یا مثلاً زندہ و مردہ انسانوں اور درگاہوں آستانوں اور قبوں کے پجاری، بزرگوں کے بارے میں غلو کرنے والے، یا پھر ارباب وحدۃ الوجود، حلول و اتحاد۔۔ تو یہ لوگ مرتد ہیں، ان کا ارتداد بھی بدترین درجہ کا ہے یہ اصلی کافروں اور اہل کتاب سے بڑے کافر ہیں، ان کی عورتوں سے نہ نکاح جائز ہے نہ ان کا ذبیحہ ان کو مسلمانوں کے معاشرے میں رہنے بھی نہیں دیا جا سکتا نہ جزیہ کے ساتھ اور نہ اہل ذمہ کے سمجھ کے اور اگر یہ قوت رکھتے ہوں اور سر